لڑاتے ہیں نظر ان سے جو ہوتے ہیں نظر والے
محبت کرتے ہیں دنیا میں دل والے ، جگر والے
ہمیں ذوقِ نظر نے کر دیا اس راز سے واقف
اشاروں میں پرکھتے ہیں زمانے کو نظر والے
کوئی تم سا نہ دیکھا ، یوں تو دیکھا ہم نے دنیا میں
بہت جادو نظر والے ، بہت جادو اثر والے
تمہاری انجمن میں اور کس کو حوصلہ یہ ہے
وہی دل پیش کرتے ہیں جو ہوتے ہیں جگر والے
سب اپنے اپنے زندانِ ہوس کے مستقل قیدی
زمیں والے، یہ زر والے ، در والے ، گھر والے
ہُنر مندانِ الفت ہیں بہت کم اس زمانے میں
جہاں میں یوں تو ہم نے لالکھوں دیکھے ہیں ہُنر والے
نصیر ان کی طرف سے یہ ہمیں تاکید ہوتی ہے
سنبھل کر بیٹھیئے محفل میں بیٹھے ہیں ، نظر والے
0 Comments