Zindagi to kabhi nahi i..🥀


آج 27 سال کی عمر میں میں زندگی کے اس مقام پر کھڑا ہوں کہ اب مجھے نوکری کی بالکل ضرورت نہیں... الحمداللہ خدا نے مجھے اب اتنا نوازنا شروع کر دیا ہے کہ مجھے عید کے بعد اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے بندو کی ضرورت پڑ سکتی ہے بلکہ اب بھی کم از کم ایک سے دو افراد کو ملازمت دے سکتا ہوں جو کہ میرے آرڈرز کو ڈلیور کرے... میری کہانی بھی ان کروڑوں غریب انسانوں جیسی ہے جس کا بچپن غریبی نے چھین لی ہو... میں بھی غریبی کی ٹوکری میں پلا بڑا اور تعلیم کے لئے در در کے ٹھوکریں کھاتا رہا...
زندگی کے اس 27 سالہ عمر میں 17 سال میں نے محنت مزدوری اور کام میں گزاری ہیں... دس سال کی عمر میں غربت اور مفلسی سے تنگ آ کر کام پر لگا اور دس سال تک صرف ٹھوکریں ہی کھاتا رہا... زندگی میں جس تعلیم کی خاطر میں نے مصیبتوں کو جھیلا ہے آج وہی تعلیمی سرگرمی میری زندگی کا حصہ ہے... مجھے یاد ہے جب میں نیپا چورنگی کے سڑکوں پر چند پیسوں کی خاطر وہاں کے تعلیمی اداروں کے پرچے بانٹا کرتا تھا اور وہیں چشموں کی دکانوں کے باہر کھڑی گاڑیاں صاف کرتا تھا جس کے مجھے ماہانہ صرف 500 روپے فی گاڑی کے معاوضے ملتے تھے... مجھے یاد ہے کہ وہ جب میں نے نویں جماعت میں فیس کی ادائیگی کے لیے اپنی ایک مس کے آگے آنسو بہائے اور پھر مس نے ترس کھا کر میری فیس ادا کی تھی..
جب میں میٹرک میں پہنچا تو بورڈ میں جمع کرانے کے پیسے نہ تھے مگر وہاں بھی خدا نے ایک انسان کو میری زندگی میں فرشتہ بنا کر بھیجا جنہوں نے میری انٹر اور گریجویشن تک تعلیم کے اخراجات برداشت کیے اور میں نے جیسے تیسے انٹر بھی پاس کیا اب گریجویشن کر رہا ہوں... 
زندگی میں جتنے بھی مشکل موڑ آتے گئے میں نے کبھی ہمت نہ ہاری نہ ہی ان مجبوریوں کو اپنی ناکامی کا نام دیا بلکہ جیسے بھی حالات رہے ہوں میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور ہر حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتا رہا...
میں نے اپنی زندگی میں تعلیم کی خاطر جتنی ٹھوکریں کھائی ہیں ان سب کا یہ صلاح ملا کے 20 سال کی عمر میں مجھے پاکستان کے سب سے منفرد تعلیمی ادارے میں نوکری ملی جہاں آج گزشتہ سات سالوں سے منسلک ہوں اور وہاں بچوں کو پڑھا رہا ہوں...
صرف یہی نہیں غربت اور افلاس کی کہانی اپنی جگہ میں پاکستان میں بسنے والے لاکھوں بنگالیوں میں سے ایک واحد بنگالی ہوں جسے آج دنیا میں سب سے زیادہ شہرت ملی... آج دنیا میں کہیں بھی پاکستان میں بنگالیوں کے حوالے سے کوئی بھی ریسرچ ہوتی ہے تو سرفہرست میرا ہی نام آتا ہے. گزشتہ پچاس سالوں میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد آج تک پاکستان میں کسی بنگالی کو شہریت کے نام پر اتنی شہرت نہیں ملی جتنی مجھے پوری دنیا میں ملی ہے... آج پاکستان کے تمام اخبارات اور میڈیا چینل سمیت امریکہ اور بنگلہ دیش کے نیوز بلاگ میں میری شہریت پر انٹرویو موجود ہیں حتی کے پاکستان کے IBA University سے لے کر Zabist University اور مختلف یونیورسٹیوں میں میرے انٹرویو سے متعدد طلبہ و طالبات اپنی تھیسس لکھ چکے ہیں... آج لندن یونیورسٹی والے پچاس سالہ تاریخ پر پاکستانی بنگالیوں پر ایک ڈاکومنٹری فلم بنانے جا رہی ہے جس پراجیکٹ کا میں کنسلٹنٹ ہوں اور وہاں سے بھی مجھے خطیر رقم مل رہے ہیں... اس کے علاوہ اس وقت میں اپنے کاروبار کی وجہ سے کراچی میں مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچ رہا ہوں... آج بیس دن مکمل ہو چکے ہیں جب میں نے اپنے آن لائن مچھلی کا کاروبار شروع کیا اور ان بیس دنوں میں ہزاروں فالوورز بن چکے ہیں سینکڑوں افراد مجھ سے مچھلیاں خرید کر ہزاروں افراد تک میری تشہیر کر چکے ہیں... اس وقت دن بدن الحمداللہ میرے کاروبار میں ترقی ملتی جارہی ہے یہی نہیں کئی دوستوں نے میرے ساتھ کاروبار میں انوسٹمنٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی اور چند کسٹمرز جو کہ ڈیفینس جیسے علاقوں میں رہتے ہیں انہوں نے لاکھوں روپے اور ایک دفتر تک آفر کرنے کے لیے اپنے گھر بلایا اور میرے ساتھ کاروبار کرنے آفر پیش کی... جن کو میں نے انکار کر دیا... 
آج میں زندگی کے جس مقام پر کھڑا ہوں وہاں سے پلٹ کر اپنے ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ سب کچھ ایک فلم کی کہانی کی طرح نظر آرہا ہے... خدا جانے وہ جو اوپر بیٹھا سب کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے مگر جو بھی چاہتا ہے بہتر ہی چاہتا ہے...
آج یہ سب کچھ میں صرف اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ جو لاکھوں کروڑوں افراد میری طرح غربت اور افلاس میں پلتے بڑھتے ہیں وہ جو غریبی و مفلسی کو اپنی کمزوری سمجھتے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ اس دنیا میں وہی شخص کامیابیاں سمیٹتا ہے جو مشکلات کا سامنا کرنا جانتا ہے... 
یہ زندگی بہت مختصر ہے مگر اس میں آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں... اگر آپ کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو آپ اس مختصر زندگی میں سوائے موت کے سب کو شکست دے سکتے ہیں. سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں... آپ بس ایک کام کریں اپنی زندگی سے مایوسی کو نکال دیں شکست کا خوف نکال دیں اور اپنے کام ایمانداری سے کریں اپنے مقاصد پر ڈٹے رہیں پھر دیکھیں کامیابی کیسے آپ کے قدم چومتی ہے اور مقدر بنتی ہے...
میں جب بھی اپنے کسی کام یا کاروبار کے متعلق کوئی تحریر لکھتا ہوں تو بہت دوست مجھ سے مشورہ مانگتے ہیں اور میں انہیں اپنے تجربات بنا کسی لالچ کے بتا دیتا ہوں اور بہت سے دوست ایسے ہیں جو انباکس میں مجھے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں لکھنے سے منع کرتے ہیں کہ کہیں مجھے نظر نہ لگ جائے... جو ایسی باتیں کرتے ہیں وہ بھی میرا بھلا چاہتے ہیں مگر میں یہ سب کچھ اس لیے لکھ دیتا ہوں کہ کہیں کوئی شخص میری تحاریر سے اگر استفادہ حاصل کر سکتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوگی... میں کسی اگر مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم میری تحریر سے ان مایوس کن لوگوں کے اندر جذب بڑھ جائے اور وہ بھی کچھ کرنے اور حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جائے... 
آخر میں ایک شعر میرے ان تمام دوستوں کے لیے جو زندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں....

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے 
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

شاہد شاہ


Post a Comment

1 Comments