احری قسط
مرینہ بے حبر سورہی تھی اور میری طبیعت بھی کچھ بہتر ہوئی
اسلیے میں اٹھ گیا مگر کمزوری کی وجہ سے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا
اور کمزوری کی وجہ شاید یہی تھی کے میں نے اس وقت سے لیکر اب تک صرف ایک گلاس پانی پیا تھا
نا
کچھ حاص کھایا تھا نا پیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک مرینہ کی انکھ کھل گئی اور مجھے دیکھتے ہی اٹھ گئی اور سہارا دیا
میں نے منع کیا مگر وہ بضد تھی کے نہیں اپکے جسم سے پانی کا احراج ہوگیا ھے اسلیے میں اپکو اکیلے اٹھنے نہیں دوگی
کیونکہ ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے چہرہ مرجھایا گیا تھا
میں نے ایک ہاتھ مرینہ کے کاندھے پر رکھا تھا
اتنے سالوں میں پہلی بار انکا بدن ٹچ کیا ایک عجیب سی مہک ایک حوشبو کا احساس سا ہوا انکے قریب ہوتے ہی
مرینہ کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا تھا ایک عجیب سا درد ایک احساس سا ہورہا تھا
مرینہ مجھے نیچے روڈ تک لے گئی قریب ہی پارک تھا اسمیں بٹھایا
میں مرینہ کو بہت زیادہ دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گئی اور اہستہ سے پوچھا
صائم پہلے تو ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اج کیا ہوا ھے تمہیں ؟؟؟؟؟؟؟
مرینہ تم نے مجھے کبھی بہت زیادہ مس کیا ھے ؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسا سوال کیوں پوچھا صائم ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایسی ہی پوچھا ،،،میں نے مرینہ کو جواب دیا
ہا صائم ہسپتال میں جب تھی تمہیں دن رات یاد کرتی اور روتی رہتی
کیونکہ میں بہت زیادہ ڈپرس ہوگئی تھی اور یہی سمجھ رہی تھی
کے شاید میں مرجاونگی اور تمہیں مرنے سے پہلے نہیں دیکھ پاونگی
حتیٰ کے سوتے میں بھی تمہارا نام لیتی تھی بعد میں سلمان کے پڑوس میں رہنے والی نرس نے بتایا کے صائم کون ھے؟؟؟؟؟؟
صائم جب تم سے دور ہوتی ہو ایک عجیب سی حلش ایک درد سا اٹھتا رہتا ھے دائیں جانب یعنی دل میں
حود کو ادھی سی محسوس کرتی ہو بلکہ حود سے باتیں کرتی ہو
ڈرتی ہو اور جب تم پاس ہوتے ہو تمام تکلیفیں چھوٹی لگتی ھے
کوئی غم نہیں ہوتا کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرینہ اتنی باتیں مجھ سے ابھی تک چھپائی کیوں؟؟؟؟؟
کیونکہ تم Senseless 'egotism اور careless تھے
یعنی میں اناپرست بے پرواہ اور بے حس تھا اتنی برائیاں تھی مجھ میں مرینہ؟؟؟؟؟؟؟
مرینہ اس دفعہ کھل کے ہنسی
وہ جب
ہنستی تو ڈمپل اسکے گال پر نظر اتا اتنی حسین تھی
مرینہ میں واقعی انا پرست ہو اور بے پراوہ بھی ہو
صائم تم جیسے بھی ہو مگر میں تمہارے بیعیر اداس ہوجاتی ہو
جب تم اپنے والد کو لیکر گئے تھے تو بہت بے صبری سے تمہارا
انتظار کرتی تھی
مرینہ مجھے روم میں لے چلو تاکے تازہ پانی سے نہاو شاید بوجھل پن حتم ہوجائے
مرینہ نے مجھے سہارا دیا اور روڈ کراس کرواکے روم میں لے گئی
مرینہ نے جلدی سے تلبینہ بنایا
تلبینہ کے متعلق احادیث نبویﷺ موجود ھے تلبینہ کے بارے میں احادیث میں ھے کے یہ غمزہ دل کے مفید ھے
مرینہ اپ نے تلبینہ کہاں سے سیکھا ھے ؟؟؟؟؟؟؟
میرے پاس طب نبویﷺ کی کتاب ھے اسمیں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی روایت ھے تلبینہ کے بارے میں
اسلیے میں بنانا سیکھا ھے
تلبینہ مرینہ نے زبردستی چمچے کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے کھلایا
طبیعت ٹھیک ہوگئی
اب طبیعت ٹھیک ہوگئی تھی اسلیے اٹھا اور باہر دو تین چکر لگائے تاکہ
ورزش ہوجائے
کچھ مہینے پہلے میں نے اپنی ڈاکومنٹس ایک امریکی لڑکی کو ارسال کی تھی جاب کے لیے
اسلیے بوسٹن میں میرا سلیکشن ہوگیا تھا
لیکن اب میں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا تھا کیونکہ مرینہ اکیلی ہوجاتی
بوسٹن نیوریارک کے جنوب میں چار سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ھے
بوسٹن کا رقبہ 12543 مربع کلومیٹر ھے اور ابادی چھ لاکھ سے اوپر ھے
مرینہ کے روم میں گیا اور کچھ پیسے دینے چاھے تاکے اسکو کچھ چاہیے تو حود حرید لیں
مگر مرینہ نے پیسے لینے سے انکار کیا کہنے لگی اسکی کیا ضرورت ھے
جب
پیسوں کی ضرورت ہوگی تب حود کہونگی
مرینہ ایک بات پوچھوں ؟؟؟؟؟؟
جی پوچیے صائم
اپ کو جو میں نے لیڈیز واچ گفٹ کی تھی وہ کہاں ھے ؟؟؟؟؟؟؟
وہ اب تک میری ساتھ تھی مگر ہاسپٹل میں جب اپ نہیں ائے اور میں انتظار کرتی رہی
تنگ
اکر میں نے وہ واچ اتاری اور کوڑے دان میں پھینکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں باہر نکل ایا اور روڈ پر مٹر گشت کرنے لگا ،،،
دیکھا تو سلمان نے کار سٹارٹ کی اور معرب کی طرف نکل پڑا
سلمان کو منع کیا تھا کے بیعیر مقصد کے مت گھومو
مگر وہ نہیں مانتا تھا
اسلیے سلمان کی فکر ہوتی جب وہ باہر کہیں جاتا
کیونکہ حطرہ ابھی تک تھا جب تک انجیلینا گرفتار نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹہلتے ٹہلتے بہت دور نکل گیا تھا پھر سوچا کے مرینہ اکیلی ہوگی
اسلیے واپس مڑا اور روم پر گیا
دیکھا تو مرینہ بیٹھی تھی اور کچھ تصوریں سامنے پڑی تھی
مجھے دیکھتی ہوئی کہنے لگی صائم تمہیں کچھ پرانی چیزیں دکھاتی ہو
پھر اس نے ایک تصویر دکھائی جسمیں سلمان ،حارث اور میں سکول میں تینوں ایک ساتھ کھڑے تھے
یہ تمہیں کہاں سے ملا مرینہ ؟؟؟؟؟؟؟
صائم یہ حارث کے روم میں تھا ایک دن میں نے دیکھا تو چپکے سے اٹھا لائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرینہ بہت حساس تھی کیونکہ ایک ایک چیز چیز سنبھال کے رکھتی تھی
میں شام سے پہلے سپر مارکیٹ کی طرف نکل پڑا تاکے مرینہ کے لیے کچھ گفٹ حرید لو
سامنے ترکی باشندے ناچ رھے شاید شادی تھی اسلیے بہت ترکی نوجوان ترکی ثقافتی ڈانس کررھے
ترکی اور فرانسینی ڈانس میں مماثلت
زیادہ ھے اسلیے میں پہلے سمجھا کے شاید یہ فرانسینی لوگ ھے لیکن جب لباس پر غور کیا
تو پتا چلا کے نہیں یہ ترکی نژاد باشندے ھے
ہوائی فائر کررھے تھے اسلیے بوسنیئن لوگ دکانوں میں اندر گئے تاکہ
محفوظ ہو
میں بھی ایک دکان میں داحل ہوا اور ایک واچ پسند کرلی ریٹ معلوم کرنے بعد حریدی
اور مرینہ کے ایک عدد جوڑا شوز حریدی دکان سے نکل کر جب میں
روم پر جانے کے لیے روڈ کراس کررہا تھا دیکھا تو سامنے دکان میں
وہ کچھ حریداری کررہی تھی مجھے بہت عصہ ایا کے پاگل لڑکی انجیلینا تمہارے پیچھے پڑی ھے
کیونکہ اپ نے وہاں سب ثبوت دیکھ لی جو انجیلینا کے گلے کا پھندہ بن سکتی تھی
میں اسکی طرف جارہا تھا کے سامنے سے وہی ترکیئن ناچتے ہوئے پستولوں سے فائر کررھے تھے
اچانک مرینہ کو ایک گولی لگی اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی اور میں نے سب کچھ پھینکا اور مرینہ کو
گود میں اٹھایا جو حون میں لت پت تھی میں نے ایک نظر ترکیئن بارات پر ڈالی
جسمیں ایک شحص الٹے طرف ہجوم سے نکل رہا تھا شاید اسنے مرینہ کو گولی ماری تھی کیونکہ اسکے پاس بھی پستول تھی
مرینہ مشکل سے سانس رہی تھی بار بار میں اسکا چہرہ تپتھپارہا تھا اور پاگلوں کی طرح چیح رہا تھا مرینہ انکھیں کھولو مرینہ انکھیں کھولو
مگر مرینہ نے انکھیں نہیں کھولی اچانک مرینہ نے ہونٹوں کو حرکت دی
کچھ منہ میں کہہ رہی تھی مگر مجھے سمجھ نہیں ارہا تھا کیونکہ
مرینہ بہت اہستہ اہستہ اور بمشکل ہونٹ ہلارہی تھی اور میں بار بار مدد کے لیے پکاررہا تھا
مرینہ کا سر میرے گود میں تھا اور میں پاگلوں کی طرح چیح رہا تھا مرینہ انکھیں کھولو مرینہ انکھیں کھولو
مگر مرینہ انکھیں بند کیے بلکل حاموش تھی مرینہ جواب نہیں دے رہی
مرینہ سکول میں جب مجھ سے ناراض ہوتی تھی تو اواز نہیں دیتی بلکہ نظر انداز کرکے اگے بڑھتی
اج بھی مرینہ وہی کرہی تھی بس فرق یہ تھا کے اج مرینہ خون میں لت پت تھی اور
تکلیف سے
کراہ رہی تھی اور سکول ،کالج میں میں وہ نحرے کررہی تھی
اچانک ایک ایمبولینس اکر رکی اور میں نے مرینہ کو سٹریچر پر ڈالا اور حود اسکے ساتھ بیٹھ گیا
مرینہ نے بے ہوشی کی حالت میں میرا شرٹ پکڑا تھا
مرینہ جب اندھیرے سے ڈرجاتی تو میرے قریب بیٹھتی اج بھی ویسا ہی کررہی تھی
مرینہ کو تھوڑی دیر کے لیے ہوش ایا انکھیں کھولی اور بار بار کچھ بولنے کے لیے ہونٹ ہلانے کی کوشش کررہی تھی
مگر تکلیف سے پھر چپ ہوجاتی اچانک ہاتھ میرے گود میں رکھ دیا
اسکی مٹھی بند تھی میں نے کھول دیا تو اس میں ایک انگھوٹی تھی
جو مردانہ تھی پتا نہیں کس کے لیے حریدی تھی
مرینہ کو گولی گلے کے قریب لگی تھی
وہ دیکھنے میں ایک ہوائی فائر تھا مگر میرا ماننا تھا کے نہیں یہ قصداً عمداً چلائی گئی گولی تھی
جو بہت مہارت سے قاتل نے ترکیئن بارات سے نشانہ لیکر مارا تھا
مگر کاش وہ شحص گولی چلانے سے پہلے میں دیکھ لیتا تو اسکے کھوپڑی میں پورا پستول حالی کرتا
تو اج مرینہ میرے سامنے ہنستی مسکراتی گھوم رہی تھی
مرینہ کو بھی میں نے سمجھایا تھا
کے باہر میرے یا سلمان کے بیعیر مت نکلا کرو مگر وہ بھی پاگل تھی
ہاسپٹل پہنچ گئے تو مرینہ کو سٹریچر پر لے کر گئے اور مجھے زبردستی باہر روک دیا گیا
میں بار بار نرسز سے پوچھتا کے مرینہ نامی پیشنٹس کیسی ھے مگر وہ نرسز حاموشی سے چلی جاتی اور میں
پاگلوں کی طرح کھڑا ہر کسی سے پوچھتا کے بتاو میری مرینہ کیسی ھے مگر مجال ھے کے کسی بھی ظالم نے اکر مرینہ کا حال مجھے بتادیا ہو
مرینہ کا ہنستا مسکراتا چہرہ بار بار میرے سامنے اتا جو کہتی صائم پاکستان میں واقعی اتنے حوبصورت اور بڑے بڑے پہاڑ ھے ؟؟؟؟؟؟؟
میرے انکھوں سے انسوں بہہ رھے تھے اور ایک چھوٹی بچی جو ہاسپٹل سے صحتیاب ہوکر اپنے والد کے ساتھ گھر جارہی تھی
اپنے والد سے کہہ رہی تھی کے ابوجان اپ کہتے ہو کے گندے بچے روتے ھے
تو کیا یہ انکل بھی گندہ ھے جو رورہا ھے
اس بچی کے باپ نے بچی کو چپ کروایا مگر وہ بچی سچ کہہ رہی تھی کے گندے لوگ روتے ھے
میں اگر گندہ نہیں ہوتا اپنے پھول جیسی محبت کو سنبھال پاتا مگر مجھ سے محبت نہیں سنبھالی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو سلمان بھی ہاسپٹل پہنچ گیا ،جب سلمان ایا تو بہت رویا
رات بارہ بجے نرس نے اکر بتایا کے مرینہ اس فانی دنیا سے جاچکی ھے
مجھے تو بلکل چپ لگ گئی مگر سلمان اپنی منہ بولی بہن کے مرنے پر دھاڑیں مار مار کر رورہا تھا
مجھے پھر بلکل اپنا ہوش نہیں رہا مرینہ کو اپنے گاوں میں سپردحاک کردیا جہاں پر وہ شام کے وقت ڈر گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسپٹل سے مجھے کچھ چیزیں نرس نے دی کے یہ مرینہ کے پرس سے نکلی ھے
گولی لگتے وقت پرس اسکے کندھے پر تھا مگر میرا دھیان نہیں گیا تھا کے پرس اسکے پاس ھے
ہا نرس نے بتایا کے سٹریچر پر پرس تھا مرینہ کے پاس ،
اس میں ایک حط تھا اور حط میں بہت پرانی باتیں لکھی تھی
یہ حط اس وقت لکھا گیا تھا جب میں دو مہینے کے لیے اپنے پاکستان گیا تھا
مرینہ نے یہ حط لکھے تھے مگر بھیجے نہیں تھے شاید شرماتی یا کچھ اور وجوہات تھی
کیونکہ مرینہ نے حط میں اپنی اداسی بیان کی تھی کے صائم میں بہت اداس ہو تمہارے بنا دل نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے جانے کے بعد میں اکیلی رہ گئی ہو تمہیں ہر وقت یاد کرکے روتی ہو ،اکیلے میں تمہیں یاد کرکے روتی ہو بہت مس کرتی ہو
جب سے تم پاکستان گئے ہو سلمان بھی نہیں اتا اور حارث بھی بہت کم نظر اتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرس سے کچھ چیزیں اور ملی تھی جسمیں لپ سٹک دو تین سکن کے لیے وٹامن E کی کریمیں تھی
سب کچھ میں نے شاپر میں ڈال دی کے جب مرینہ اس دنیا میں رہی تو اسکی چیزیں تو سنبھال کے رکھنی تھی
سلمان اپنے والدین کے ساتھ ترکی شفٹ ہوگیا اور میں امریکہ بوسٹن گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے سامنے چائے پڑی تھی اور میرا زہن ہزاروں کلومیٹر کئی سرحدوں کے اس پار ایک انسان کو تلاش کررہا تھا
جو پتا نہیں اپنے ملک بوسنیا میں کس حال میں ہونگی کہاں ہوگی ؟
مجھے اب پہچانتی ہوگی کے نہیں ؟؟؟؟؟؟
اس انسان سے بچھڑے ہوئے اٹھ سال ہوگئے مگر اب بھی ایسے لگتا ھے
کے کسی باعیچے سے نکل کر تنگ کریگی مجھے
پھر سوچھتا ہو کے مرینہ مجھے چھوڑ کر جاچکی ھے اب تو اس سے
بچھڑے ہوئے اٹھ سال ہوگئے وہ اتنی ظالم تھی کے اٹھ سال میں کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا
کے صائم اب کیسا ھے
والدین واپس پاکستان گئے اور بہت منتیں کیں کے مرینہ اب نہیں ھے تمہاری شادی کروادینگے،
مگر میں نے اب تنہا ہی زندگی گزارنی ھے بوسٹن روشنیوں کا شہر ھے ،رات کو نائٹ کلب سے راک میوزک بلند ہوتا ھے تو پورا امریکہ سنتا ھے
مگر میں تو اپنی تنہائی میں زندگی جی رہا ہو اج بھی مرینہ کا حط اور لپ سٹک
ہاتھ میں لیے پھررہا ہو بوسٹن کی گلیوں میں
یہ غزل گنگناتا رہتا ہو
لگتا نہیں ھے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ھے عالم ناپائیدار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن کے
دو ارزوں میں کٹ گئے دو انتظار میں
0 Comments