"داستان طوائف"
جسم فروشی تک....
احسن کسی کام سے ملتان گیا ہوا تھا.
مختلف لوگوں کا انٹرویو کرنا احسن کا مشغلہ تھا.
دل پھینک، زندہ دل انسان تھا.
عمر لگ بھگ کوئی 26 سالہ ایک خوبرو جوان تھا.
خاندانی اور نسلی اعتبار سے اس کے گھر والے خود کو اعلیٰ درجے کا تصور کرتے تھے.
عہدے اور مرتبے کا غرور تھا، رنگ و نسل، زات پات، نام و نسب ،رسم و رواج، خاندانی سٹیٹس یہ سارے حروف وہ بچپن ہی سے کسی سبق کی طرح سنتا آیا تھا.
ایلیٹ کلاس میں زیادہ تر اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت یہ سب کچھ کسی کتابچے یا سبق کی مانند اپنے بچوں کو لازمی نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے.
کہ بچہ یا بچی کبھی عام لوگوں یا ان کے مطابق سڑک چھاپ لوگوں سے زیادہ تعلقات استوار نہ کریں اور اپنے مستقبل میں اپنے ہمسفر کا چناؤ کرتے وقت ان سب باتوں کا خیال ضرور رکھیں..
اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے وقت احسن کی نظر ایک دوشیزہ پر پڑی..
عمر میں احسن سے بڑی تھی.
مگر شاداب اور کھلا ہوا چہرہ تھا..
وہ حجاب میں نظر جھکا کر رکشہ کا انتظار کر رہی تھی.
احسن اس کے چہرے کی پریشانی کو دیکھ رہا تھا..
کچھ لوگ آتے جاتے اس پر فکرے کہتے ہوئے گزر رہے تھے مگر وہ کسی کی بات پر کان نہیں دھر رہی تھی.
اپنے پرس سے بار بار فون نکال کر کسی سے بات کرتی تھی پھر ادھر ادھر دیکھتی تھی..
احسن کو تجسس کے ساتھ ساتھ تعجب بھی ہو رہا تھا.
( بار بار فون پر بات اور پھر ادھر ادھر دیکھنا.. احسن کو کچھ خدشات اور شک و شبہات کے ساتھ ساتھ یہ بھی لگ رہا تھا کہ وہ شاید کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہے)
اتنے میں ایک گاڑی آ کر رکی...
گاڑی کا دروازہ کھلا... اور وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے لگی..
احسن جلدی سے اپنی گاڑی میں بیٹھا اور اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگا...
گاڑی کچھ دور جا کر ایک ہوٹل کے سامنے رکی....
وہ گاڑی سے اتری اور ارد گرد دیکھتے ہوئے پریشانی میں جلدی جلدی اس گاڑی والے مرد کے ساتھ ہوٹل کے اندر چلی گئی....
( بوائے فرینڈ ہوگا شاید اس کا)
احسن دل ہی دل میں سوچ رہا تھا....
وہاں چوک پر تو اتنی معصوم بن کر ٹھہری تھی کہ جیسے کوئی خاندانی اور نہایت شریف لڑکی ہو.
مگر کام دیکھو اس کے..
اتنے میں وہ ہوٹل سے اکیلی باہر نکلی...
رکشہ کروایا اور بیٹھ کر چلی گئی...
( عجیب بوائے فرینڈ ہے باہر تک تو ساتھ آ جاتا اگر گھر تک نہیں چھوڑ سکتا تھا تو... کمینہ)
لیکن یہاں احسن کی چھٹی حس کی گھنٹیاں بجنے لگی...
نہیں نہیں...
معاملہ کچھ اور لگتا ہے...
احسن ہوٹل کے اندر داخل ہوا....
( کمال کی آءیٹم تھی یار)
یہ بات احسن کے کانوں میں پڑی....
بولنے والا وہی تھا جو گاڑی میں اس لڑکی کو ہوٹل لے کر آیا تھا....
ایک رات کا کتنا لیتی ہے؟
وہ گاڑی والا ہوٹل کے منیجر سے پوچھ ریا تھا...
ارے سر...
کوئی مسئلہ نہیں ہے...
آپ کا جب ارادہ ہو بات طے کروا دوں گا...
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے...
اچھا لو اپنا انعام تو لے لو...
پانچ سو روپے کا نوٹ ہوٹل منیجر کے ہاتھ میں تھما کر وہ شخص باہر چلا گیا...
احسن کسی سوچ میں گم تھا...
"طوائف".....
مطلب طوائف ہے یہ تو پھر...
حجاب تو ایسے لیا ہوا تھا جیسے مدرسے جاتی ہو..
کام دیکھو اور انداز دیکھو....
ایکسکیوز می...
میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں سر؟
ہوٹل منیجر نے احسن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا..
وہ... وہ.... وہ... دراصل میں...
میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ......
کیا ایک کمرہ مل سکتا ہے؟
جی سر... کیوں نہیں..
صرف کمرہ لیں گے یا کچھ اور بھی؟
میں کچھ سمجھا نہیں؟
احسن نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا...
ارے سر میں اچھی طرح جانتا ہوں آپ جیسے جوان کی دلچسپی کو...
تصاویر کا ایک البم احسن کے سامنے رکھتے ہوئے منیجر نے کہا...
احسن نے کہا کہ ابھی جو عورت گئی ہے وہ؟
جی جی سر... وہ بھی...
ٹھیک ہے اس کے ساتھ میرا آج رات کا وقت مقرر کر دیں..
ڈن ہو گیا سر...
احسن ایڈوانس اور منیجر کا کمیشن دے کر ہوٹل سے واپس چلا گیا....
رات کو 9بجے منیجر نے کال کی ...
آج رات کی ڈیل پکی ہو چکی ہے.. گیارہ بجے ہوٹل پہنچ جانا....
میری والدہ شدید بیمار ہے اور اس وقت ایمرجنسی میں داخل ہے..
میں نہیں آ سکتی ہوں...
زیادہ نخرے مت کرو... اور وقت پر پہنچ جانا..
میں ڈیل پکی کر چکا ہوں.. پارٹی بڑی ہے...
منیجر نے سخت لہجے میں کہا..
لیکن میری والدہ....
میں کچھ نہیں جانتا...
اگر ڈیل کینسل ہوءی تو میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ دنیا دیکھے گی... اور پھر کبھی تمہیں کوئی کسٹمر بھی نہیں دوں گا...
منیجر نے یہ کہ کر غصے سے کال کاٹ دی...
اگر ایسا ہوا تو والدہ کے علاج کے لئے پیسے اور بچوں کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی...
یہ سوچتے سوچتے وہ جلدی سے گھر پہنچی..
تیار ہو کر حجاب پہنا اور رکشے میں بیٹھ گئی...
ایمرجنسی میں پڑی بیمار والدہ کا چہرہ بار بار اس کے سامنے آ رہا تھا...
روتے روتے اس کے چہرے کا میک اپ خراب ہو چکا تھا.
ہوٹل پہنچ کر وہ رکشے سے اتری اور ہوٹل میں داخل ہوءی........
اپنا بوتھا دیکھا ہے؟
یہ اترا ہوا چہرہ دیکھ کر تمہارے پاس کس نے آنا ہے؟
کمرے میں جا کر اپنا حال ٹھیک کرو وہ آنے ہی والا ہوگا..
منیجر نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا..
وہ کمرے میں جا کر تیار ہو کر بیٹھ گئی.
ٹھیک گیارہ بجے احسن بھی پہنچ گیا..
وہ آپ کا ہی انتظار کر رہی ہے سر..
کمرہ نمبر 16 میں تشریف لے جائیں....
احسن کمرے میں داخل ہوا...
میرا نام احسن ہے...
مجھے تمہارے جسم سے کوئی مطلب نہیں کہ میں غلاظت میں منہ نہیں مارتا...
مگر یہ سب کرنے کا مقصد تمہارا چہرہ ہے نقاب کرنا تھا...
شریف بن کر حجاب پہن کر تم جیسی عورتیں چہرے پر معصومیت سجائے مجھ جیسے مردوں کو دھوکا دیتی ہو.........
وہ خاموشی سے سب سن رہی تھی...
بیمار والدہ، منیجر کا رویہ اور اب احسن کے الفاظ...
مگر معمول تھا سب...
نام کیا ہے تمہارا؟
نرمین.....
نام بہت پیرا ہے...
مگر کام....
توبہ... خدا معاف کرے....
"طوائف".....
ہاں طوائف ہے تمہارا نام...
احسن نے مزہ بناتے ہوئے کہا...
جی درست فرمایا آپ نے... طوائف میرا نام ہے.....
خیر تم مجھے احسن بلا سکتی ہو...
تم طوائف بھی شوق سے بنتی ہو اور کوئی وجہ نہیں ہوتی........
نرمین نے اب حوصلہ کیا اور جواب دینے کا سوچا...
ہمارے اندر کی عورت جب اپنی موت آپ مر جاتی ہے.
جب ہمارے خواب حقیقت کے قبرستان کی کسی گہری قبر میں دفن ہو جاتے ہیں.
جب ہمارے جزبات کا قتل ہو جاتا ہے.
جب ہماری خواہشات مجبوریوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں.
جب ہمارے رشتے غربت، ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تو.
مختصر یہ کہ جب ایک عورت چلتی پھرتی زندہ لاش بن جاتی ہے تو ہمارے اندر ایک "طوائف" کا جنم ہوتا ہے..
نہیں نرمین میرے خیال سے تم جیسی عورتوں کو فقط مختلف مردوں کا چسکا ہوتا ہے.
مردوں کا چسکا؟
نرمین نے افسردگی سے پوچھا...
ہاں مردوں کا چسکا...
سنو احسن...
شراب اور چرس پی کر آتے ہیں. گندی گندی گالیاں دیتے ہیں. وحشیہ، طوائف ،جسم فروش اور اس سے بھی گندے گندے الفاظ سے پکارتے ہیں.
اپنے ناخنوں سے ساری رات میرا جسم کسی وحشی درندوں کی طرح نوچتے ہیں...
پان کی پچکاریاں مارتے ہیں.. میرے چہرے اور میرے جسم پر تھوکتے ہیں.
بدبودار جسم جن کے دس قدم کی دوری پر ٹھہرنے والے بھی کراہت اور گھن محسوس کرتے ہیں.
ایسے ایسے مردوں کو بھی مسکراتے ہوئے گلے لگانا پڑتا ہے تاکہ ان کے جسم کی پیاس اور حوس بجھا کر میں اپنے بھوکے بچوں کی بھوک مٹا سکوں.
ایسے مردوں کا چسکا کسی زندہ لاش کو ہی ہو سکتا ہے جو کہ میں اس وقت بن چکی ہوں.
وگرنہ ایسے مردوں کو تو کوئی جنگلی کتیا بھی منہ نہ لگائیں...
تم لوگوں کی نظر میں تو پھر ایک طوائف کتیا سے بھی گری ہوئی ہوتی ہے؟
تو نرمین تمہارے یہاں تک آنے یا ایک عورت کے طوائف بننے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
احسن کبھی میرا باپ مجھے دو ٹکوں کے عوض فروخت کر دیتا ہے. کبھی میرا بھائی اپنی عیاشیوں کی خاطر مجھے نیلام کر دیتا ہے.
کبھی میری عزت کا محافظ اور رکھوالا یعنی شوہر مجھے جوا میں ہار جاتا ہے....
کبھی مجھ سے اظہارِ محبت کرنے والا مرد شادی کے خواب دکھا کر مجھے جسم فروشی کے کوٹھے پر بیچ دیتا ہے...
لیکن احسن....
میں اپنی مجبوریوں کی آڑ میں اپنے بچوں کی بھوک کی خاطر، اپنی اماں کے علاج کی خاطر، اپنے میاں کے قرض کی خاطر،
در در کی ٹھوکریں کھانے، دھتکارے جانے کے بعد مجبور ہو کر اپنا جسم فروخت کرتی ہوں تو میں "طوائف" بن جاتی ہوں......
لیکن معاشرے کی وہ خواتین جو اپنی مرضی سے بنا کسی مجبوری کے اپنے پسندیدہ مرد کو اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنا جسم ہوٹل کے کمروں اور جوس کارنر میں دے دیتی ہیں کیا وہ طوائف سے بڑی طوائف نہیں ہیں احسن؟
لیکن نرمین اس کام سے حاصل ہونے والی رقم بھی حرام ہے اور یہ کام بھی.....
احسن اس تھانیدار کے بارے میں کیا خیال ہے جو میڈیا کے دباؤ میں آ کر کوٹھے پر چھاپہ مارتا ہے تو گرفتار ہونے والے مردوں کو سیاسی سفارش یا رشوت لینے کے بعد باعزت بری کر دیتا ہے.
مگر گرفتار ہونے والی طوائف سے رہائی کے بدلے جسم کی پیاس بجھانے کی شرط رکھتا ہے یا پھر ایک طوائف سے جسم بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے اپنا حصہ لے کر اپنے بچوں کیلئے کتب لے جاتا ہے... پھل فروٹ لے جاتا ہے. سبزیاں لے جاتا ہے.....؟؟
میں جسم بیچ کر بچے پال رہی ہوں تو وحشیہ ہوں...
اور جو میرے جسم کی کمائی اور دھندے سے حاصل ہونے والی رقم سے لاکھوں مالک مکان، ہوٹل مالکان، سیاستدان اور تھانیدار اپنے بچے پال رہے ہیں...
وہ کون ہیں پھر احسن؟
مطلب تمہاری نظر میں میڈیا اپنا صحیح کردار ادا کر رہا ہے نرمین؟؟؟
کونسا کردار احسن؟
جب اپنے حصے کی رقم یا بھتہ نہیں ملتا تو میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے..
پولیس کے ساتھ چھاپہ مارتے ہیں اور برہنہ حالت میں ہماری تصاویر اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں..
احسن تم جانتے ہو؟
اندازہ لگا سکتے ہو اس عورت پر گزرنے والی کیفیت اور درد کا جو بیوہ ہو اور چار بچوں کی کفالت کا بوجھ اور بوڑھی لاچار اماں جو بستر پر زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہو.
گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل، بچوں کے تعلیمی اخراجات، اماں کی دوا اور علاج پر لگنے والی بھاری رقم....؟؟؟؟؟ ؟
اور وہ عورت اپنی بوڑھی اماں اور بچوں سے جھوٹ بول کر جاتی ہو کہ وہ کسی ادارے میں جاب کرتی ہے اور اس عورت کی برہنہ تصویر اور ویڈیوز viral ہو جائے.
نہیں نہیں احسن تم ہزار کوشش کے بعد بھی اس عورت کا درد محسوس نہیں کر سکتے..
بوڑھی اماں اور بچوں کے سامنے رسوا ہونے کا ڈر.
رشتے داروں کا مجھے خوف نہیں احسن.
خوف اس بات کا ہے کہ میرے بچوں کو طوائف کی ناجائز اولاد ہونے کا طعنہ دیا جاءے گا.
اور تم جانتے ہو احسن؟
میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے بچے جب جوان ہوں گے تو مجھ پر دھندہ کرنے کا دھبہ لگا کر مجھے دھکے دے کر نکال دیں گے.. تب تک میرا حسن اور جوانی بھی ڈھل چکے ہوں گے.....
مگر میں پرواہ نہیں کرتی احسن...
میں بھیک مانگ لوں گی.. سوکھی روٹی اور خشک جھاڑیاں کھا لوں گی.... کچرے میں پڑی روٹی کھا لوں گی..
مگر اس وقت سوال میرا نہیں ہے...
سوال میرے بچوں اور بوڑھی اماں کا ہے....
تم یہ سب چھوڑ کر کسی سے شادی کیوں نہیں کر لیتی نرمین؟؟؟
شادی؟
اچھا مزاق ہے احسن.
بھلا طوائف سے شادی کون کرتا ہے؟
ایسی بات نہیں ہے نرمین..
اچھے مرد آج بھی معاشرے میں موجود ہیں...
اچھے مرد..؟
تم کر سکتے ہو مجھ سے شادی احسن؟
مہ مہ مہ میں؟
احسن کی آواز کے ساتھ ساتھ پورا جسم کانپ رہا تھا...
اس سوال پر احسن اپنے حواس کھو بیٹھا تھا..
اس کے چہرے پر پسینہ تھا...
( جب کہ کمرے میں ac کا درجہ حرارت 16 پر تھا).
ایک لمحے کی خاموشی تھی...
مگر اس خاموشی میں نرمین کے درد کی چیخیں شور مچا رہی رہی تھیں...
جسے فقط وہ خود ہی سن سکتی تھی کیونکہ آہ کی چیخ سننے کیلئے احساس کے کان درکار ہوتے ہیں جو صرف ایک طوائف کے پاس تھے...
کمرے کی دیواریں یہ چیخ سن کر خون کے آنسو زار و قطار رو رہی تھی..
احسن دل ہی دل میں کچھ بڑ بڑا رہا تھا..
شادی؟ طوائف؟ میں؟ طوائف؟ نام و نسب؟ طوائف ؟ رسم و رواج؟ طوائف ؟ معاشرہ؟ طوائف؟ خاندانی ثقافت؟ طوائف؟
Family status? طوائف ؟
لوگ؟ طوائف؟ رنگ و نسل؟ طوائف ؟ زات پات ؟ طوائف ؟......
احسن یہ سب کچھ بڑ بڑا رہا تھا....
نرمین نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ایک شادابی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بڑے پیار سے احسن سے مخاطب ہو کر کہا...
احسن؟
اگر اس نام و نسب، رنگ و نسل ،زات پات ،عہدہ و مرتبہ، رسم و رواج ،خاندانی ثقافت، family status
کا خیال تم لوگ کوٹھوں پر جانے سے پہلے اور طوائف کے ساتھ رات گزارنے سے پہلے کرتے تو آج جسم فروشی کے یہ کوٹھے ویران پڑے ہوتے...
یہاں جسم فروشی کا دھندہ نہ ہوتا...
اور طوائف کو کسی اور راستے کا انتخاب کرنا پڑتا....
مگر افسوس کہ تم لوگ اس سب کی پرواہ فقط حلال راستے اور شرعی طریقوں پر کرتے ہو..
حرام، ناجائز اور غیر شرعی کام کرتے وقت، کوٹھوں پر جاتے وقت، وحشیہ کے ساتھ رات گزارتے وقت تم اس سب کی پرواہ نہیں کرتے....
نرمین مگر....
تم جس راستے پر ہو اس کی منزل جہنم ہے....
احسن جس ماں کے جگر کے گوشے بھوک کے مارے تڑپ رہے ہوں...
جس کا بچہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو.......
مگر ڈاکٹر مسیحا ہزار منت، سماجت، ہاتھ جوڑنے اور گڑ گڑانے کے ،خدا اور رسول کے واسطے دینے کے بعد بھی علاج کرنے پر آمادہ نہ ہو....
جس کی بوڑھی، بزرگ اور لاچار ماں دواؤں اور علاج کی غرض سے اپنی بیٹی کی جانب افسردگی کی نگاہ سے دیکھتی ہو.....
وہ گناہ یا ثوابِ نہیں دیکھتی احسن...
وہ اپنے بچوں کے فاقہ اور بوڑھی ماں کی بیماری کو دیکھتی ہے......
لیکن نرمین.................
دیکھو احسن...
معاشرے میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہی ایک عورت کو طوائف اور وحشیہ بناتی ہے...
اور ایک پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نوجوان کو ہتھیار اٹھانے اور دہشت گرد بننے پر مجبور کرتی ہے....
جب جسم پر چادر ڈالنے کی بجائے جسم سے لباس اتارنے پر دولت خرچ کی جاتی ہو...
جب مجرے کی محفلوں پر ڈالرز نچھاور کئے جاتے ہوں تو مجھ جیسی عورت کو طوائف بننا پڑتا ہے....
اور رہی بات میری جہنم کی؟
تو میرے پاس آنے والوں، مجھ سے دھندہ کروانے والوں، اور میرا جسم خریدنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے احسن؟؟؟؟ ؟؟
کیا خدا طوائفوں کا نہیں ہوتا احسن؟
تم نے وہ واقعہ تو کسی کتاب میں پڑھا ہوگا؟
واقعہ؟ کونسا واقعہ نرمین؟
مجھ جیسی ہی ایک طوائف نے جب اپنے جوتے میں پانی بھر کر ایک پیاسے کتے کو پلایا تھا...
تو میرے غفور رحیم خدا نے اسے بخش کر جنت عطا کر دی تھی.....
تو میرا خدا بھی تو وہی خدا ہے نا احسن؟.......
مجھے خود سے زیادہ فکر ان لوگوں کی ہے احسن جن کی ناانصافیوں کی بدولت میں اس جسم فروشی کے بازار تک پہنچی ہوں....
باقی میری جنت یا جہنم کا فیصلہ کرنے والے انسان کون ہوتے ہیں؟
یہ سب باتیں احسن کہ منہ پر کسی زور دار تماچے کی مانند لگی تھی....
نرمین کیا تمہیں آج تک کوئی اچھا مرد نہیں ملا؟
میں اچھے مردوں کے پیر دھو کر بھی پینے کیلئے تیار ہوں احسن......
تمہیں ایک دن کا واقعہ سناتی ہوں....
ایک دن چھ لڑکے رات کیلئے میرا جسم خرید کر مجھے اپنے ساتھ لے گئے.....
ان لڑکوں نے شراب پی اور مجھے اپنے درمیان میں بٹھا لیا اور مجھ سے بھی شراب پینے کا کہنے لگے.....
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر شراب نہیں پیتی.....
میرے انکار کرنے پر نشے میں دھت لڑکوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا...
اور پھر باری باری زخمی حالت میں بھی ساری رات میرا جسم نوچے رہے....
میری چوڑیاں توڑی اور میری کلائیوں سے خون بہتا رہا..
اور گلاس کا کانچ ماتھے پر لگنے سے میرا ماتھا بھی شدید زخمی تھا....
میں خالی پیٹ تھی.. مگر وہ پھر بھی ساری رات میرا جسم نوچتے رہے.....
اسی دوران ان سب نے اپنے ایک دوست کو بھی فون پر آنے کی دعوت دی...
ایک لڑکا مجھ پر اپنی حوس بجھا رہا تھا کہ فجر کی ازان شروع ہو گئی.
میں نے ایک دم سے سیدھے ہو کر اپنے جسم پر چادر لینے اور سر پر دوپٹہ لینے کی کوشش کی....
ایسا کرنے پر اس لڑکے نے شراب کی بوتل میرے سر پر دے ماری.....
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر آذان کا احترام کرتی ہوں......
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر کمرے میں قرآن مجید کو الماری میں رکھ کر جسم فروشی کا دھندہ کر کے بے حرمتی نہیں کرتی...
جب وہ لڑکا جسے انہوں نے فون پر دعوت دے کر بلایا تھا.........
کمرے میں داخل ہوا...
میں ننگے بدن بیٹھی رو رہی تھی.. میرا پورا جسم درد کر رہا تھا...
اس لڑکے کو دیکھ کر میں سیدھی ہو گئی..
میرے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھ کر وہ لڑکا سکتے کی حالت میں تھا...
سارا معاملا شاید اس کی سمجھ آ چکا تھا....
آپ اپنے کپڑے پہن کر اپنا سامان باندھ لیں...
آپ؟
یہ عزت والا لفظ میرے کان میں پڑا تو روح کو کچھ سکون سا ملا....
میں نے اپنا سامان باندھتے ہوئے کمرے کے باہر سے آنے والی آوازیں سنی....
یہ لڑکا اپنے باقی دوستوں سے جھگڑ رہا تھا....
کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آیا اور مجھ سے چلنے کا کہا.
میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے دوستوں سے جھگڑتا ہوا مجھے لے کر باہر چلا گیا.
موٹر سائیکل پر اپنے ساتھ مجھے ہسپتال لے گیا...
میرے زخموں پر مرہم پٹی کروانے کے بعد مجھے میرے گھر سے کچھ فاصلے پر
Sorrrrrrrrrrrry
کہتے ہوئے چلا گیا...
اس کے اس انداز اور لہجے سے ہی میرے سارے زخم بھر چکے تھے احسن.....
احسن وہ ضرور کسی اعلیٰ تربیت یافتہ والدین کی اولاد تھا....
اعلیٰ درجے کے نام و نسب والا...
اس لڑکے کا نام کیا تھا نرمین؟
نام؟ فرشتہ تھا شاید......
فرشتہ؟
ہاں فرشتہ....
یہی نام تھا اس کا...
کیونکہ میری نظر میں ایسے مرد فرشتہ ہی ہوتے ہیں احسن.........
احسن میں طوائف ضرور ہوں مگر شراب نہیں پیتی.
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر کمرے کی الماری میں قرآن پاک رکھ کر جسم فروشی کا دھندہ کر کے اس کی بے حرمتی نہیں کرتی.....
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر ازان کا احترام کرتی ہوں......
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر صرف اپنی عزت کا سودا کرتی ہوں.
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر سود کا کاروبار نہیں کرتی......
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ نہیں کرتی....
میں طوائف ضرور ہوں احسن مگر یتیم اور مسکین کے حق نہیں کھاتی.....
ایک بار پھر نرمین کے الفاظ احسن کے دل و دماغ کو زخمی کر گئے تھے....
( کمرے میں ایک طویل اور گہری خاموشی تھی....)
نرمین تم اس معاشرے کو کوئی پیغام دینا چاہو گی؟
میری ایسے مردوں سے ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر گزارش ہے جو چھوٹی چھوٹی ننھی کلیوں کو کھلنے سے پہلے اپنی حوس میں دبوچ کر مرجھا دیتے ہیں.
جو پھول سے بچوں سے زیادتی کرنے کے بعد ان کا گلا دبا کر، گلا کاٹ کر کچرے کے ڈھیر میں بھوکے کتوں کے سامنے پھینک دیتے ہیں...
کبھی پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دیتے ہیں...
کبھی اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر گندے نالے میں پھینک جاتے ہیں...
میرا بستر اور میرا جسم ایسے مردوں کیلئے ہمہ وقت، ہر طریقے سے حاضر ہے.
مگر خدارا..... خدارا....
یہ ظلم و ستم چھوڑ دو.
جانتے ہو احسن؟
جب کبھی میں کوئی ایسا واقعہ سنتی ہوں تو میرے کانوں میں ان پھول سے بھی نازک بچوں کی چیخیں گونجتی رہتی ہیں....
میرے دل میں چھید ہو جاتے ہیں.
میرا رونگ رونگ زرہ زرہ زخمی اور لہو لہان ہونے لگتا ہے...
جو عمر کھلونوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے جس عمر میں اپنا دوپٹہ بھی نہیں سنبھالا جاتا... جزبات اور احساسات کی خبر تک نہیں ہوتی....
اس عمر میں درندوں کی طرح نوچ کھاتے ہیں.
درد کے مارے چلاتے ہوئے ماں ماں ماں پکارتے ہوئے وہ درد ناک آخری سانسیں لیتی ہوں گی...
اور یہ سب بولنے کے بعد نرمین کی آنکھوں سے آنسو کی جگہ خون اور انسانیت کا درد بہہ رہا تھا...
وہ روءے جا رہی تھی.
اتنے میں بجلی کے چمکنے اور بادل کے گرجنے کی خوفناک آوازیں کمرے کے اندر تک گونجنے لگی...
نرمین کے ساتھ ساتھ جیسے سارا آسمان اور کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا تھا....
احسن نے نرمین کو تسلی اور دلاسہ دیتے ہوئے خاموش کروانے کی کوشش کی....
تم اب جا سکتے ہو احسن....
اور ہاں میرا یہ پیغام معاشرے کے ہر فرد تک ضرور پہنچا دینا.....
احسن لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بہت بار گرتے گرتے بچا...
اور کمرے کی دیواروں کا سہارا لیتے ہوئے باہر چلا گیا...
نرمین نے دروازہ بند کیا اور دیوار کو گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی...
روتے روتے نرمین...
میرے اللہ میری توبہ...
میری توبہ
میری توبہ......
کا ورد کرتے کرتے اس معاشرے کو ایک خوبصورت پیغام کے ساتھ ساتھ زور دار تماچا مارتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی..... 😢😢😢😢😢😢😢....
کمرے کی دیواروں نے اس نقصان پر
ان للہ وانا الیہ راجعون... کہا
اور موسم نے سورہ فاتحہ پڑھی.....
😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢
احسن اپنے گھر کی جانب جا رہا تھا مگر نرمین کی باتیں اس کے دل و دماغ کو زخمی کر چکی تھیں...
نرمین؟
طوائف؟
معاشرہ؟ لوگ؟ کوٹھا....
نہیں نہیں....
احسن نے نرمین کے اس خوبصورت پیغام کے ساتھ اضافہ کرتے ہوئے لکھا...
"درحقیقت طوائف اور وحشیہ نرمین نہیں...
طوائف اور وحشی مجھ جیسے لوگ اور معاشرہ ہے)..
😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢
.......
میں نہیں جانتا کہ آپ لوگ اس افسانے سے اختلاف کریں گے یا متفق ہوں گے....
لیکن یہ لکھتے لکھتے میں بہت بار پھوٹ پھوٹ کر رویا ہوں.....
مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے مجھ میں ایک طوائف کی روح پھونک دی ہے تاکہ میں اس کے درد اور مشکلات کو دل سے محسوس کروں....
0 Comments