𝒮𝑒𝑒 𝓎𝑜𝓊 𝓉𝑜𝓂𝑜𝓇𝓇𝑜𝓌🌅


چِراغ شام سے پہلے 
✒️ہماوقاص 
قسط نمبر7 
فرہاد  نے سنگترہ ہاتھ میں پکڑے  غور سے نیم کے نیچے لگی چارپاٸ پر بیٹھی منہا کو دیکھا  جو گود میں کتاب رکھے سامنے غیر مرٸ نقطے پر نگاہیں جماۓ بیٹھی تھی ۔ 
فرہاد باورچی خانے سے سنگترہ لے کر باہر نکلا تھا جب اس کی نظر منہا پر پڑی اور پھر قدم ہمیشہ کی طرح خود بخود اس کی طرف بڑھنے لگے تھے  ۔ عصر ہونے کو تھی دھوپ اب حویلی کی دیواروں کو ٹاپ رہی تھی ۔ ہلکے ہلکے ہوا کے جھونکے جہاں نیم کے پتوں اور ٹہنیوں کو داٸیں باٸیں جھلا رہے تھے  وہاں کھوٸ سی بیٹھی منہا کی ایک آوارہ لٹ کو بھی بار بار اڑا رہے تھے  ۔ 
وہ جازب نظر تھی ، سانولی رنگت  ناک تھوڑی بیٹھی سی تھی پر اس کے گول کشادہ  چہرے پر خوب جچتی تھی ، وہ بلکل  زیب پھپھو جیسی تھی اور فرہاد کو وہ کب پھینی پکوڑی سے دلکش و حسین لگنے لگی تھی خبر ہی نہیں ہوٸ تھی۔ 
بظاہر تو وہ اس سے ہر وقت چھیڑ چھاڑ ہی کرتا رہتا تھا ، پر دل میں ایک گدگدی سی رہتی تھی جب بھی کبھی وہ سامنے آتی بات کرتی کچھ بھی کہتی  دل عجیب طرح سے گدگدانے لگتا  ،  لڑکپن سے جوانی کا دور دورہ تھا اس لیے دل میں  جذبات کا اچھال  ایک فطری عمل تھا ۔  
وہ درخت کے پاس پہنچ چکا تھا نیم کے پتے اور نبولیاں جگہ جگہ زمین پر گری ہوٸ تھیں جو اب فرہاد کے جوتے کے نیچے دب دب کر پچک رہی تھیں صبح تڑکے تاری بوا اور شمو مل کر صحن میں جھاڑو لگا دیتی تھیں پر عصر ہوتے ہی صحن کا حال پھر سے درختوں کے پتوں اور پھلوں سے برے حال میں تبدیل ہو جاتا تھا  ۔ جیسے ہی وہ منہا کے پاس آیا وہ جو خیالوں میں کھوٸ اداس سی بیٹھی تھی نگاہ کتاب پر جما دی ۔
” تمھارا منہ لٹکا ہے ۔۔۔کہتی ہو گی مالا مجھ سے چھوٹی ہے اس کی شادی ہو گٸ ہے میری نہیں ہوٸ  ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔“ 
فرہاد نے سنگترے کے کش کو منہ میں ڈالتے ہوۓ منہا کو چھیڑا جو اب تیوری چڑھاۓ اسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔ 
” تمھاری گھٹیا سوچ ہے کیا کہا جا سکتا ہے  ، اور تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے میرا کوٸ منہ لٹکا نہیں ہوا “
منہا نے جھنجلا کر کہا اور اس سے بے اعتناٸ برتی پر وہ تو ازل کا ڈھیٹ تھا  ۔ 
” لٹکا تو ہوا ہے ۔۔۔ مانو نا مانو “ 
فرہاد نے ڈھیٹ پن سے دانت نکلاتے ہوۓ اسے اور چڑانے کی کوشش کی ۔ سنگترے کے ایک کش کو اس کی طرف بڑھایا منہا نے برا سا منہ بنا کر انکار کر دیا 
” فرہاد میرا دماغ مت کھاٶ اور جاٶ یہاں سے پہلے ہی پڑھا نہیں جا رہا “ 
منہا نے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا اور کتاب پر نگاہ جما دی تھی اس سال گاٶں میں نویں جماعت بھی بیٹھ گٸ تھی ، تقی نے منہا کے انکار کے باوجود نقیب اور بلقیس سے لڑ کر اس کا نویں جماعت میں داخلہ کروایا تھا ۔
” ہاۓ ۔۔۔ ایک تو بیچاری کا یہ غم ۔۔ ۔۔ تقی بھاٸ زبردستی پڑھا رہے ہیں اوپر سے ہے بھی تو نکمی سی رمنا جیسی لاٸق ہوتی تو اور۔۔۔۔ “ 
فرہاد کو اندازہ ہی نہیں ہوا وہ باتوں ہی باتوں میں رمنا کا نام لے گیا تھا اور منہا کے چہرے پر رمنا کا نام سنتے ہی اداسی کا سایہ لہرا گیا تھا ۔ رمنا کی موت سے گہرے صدمے میں جانے والوں میں اس کا بھی شمار تھا بچپن سے ایک ساتھ پلی بڑھی تھیں گہری دوستی تھی ۔ 
” منہا ۔۔۔۔ معاف کر دو ۔۔۔۔ میں تو بس ایسے ہی بکواس کر دیتا ہوں “ 
فرہاد کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ گھر والے غزالہ ، تقی اور منہا کے سامنے رمنا کا ذکر کم ہی کرتے تھے کیونکہ یہ وہ افراد تھے جو اسے اب تک یاد کر کے روتے تھے ۔ اور وہ تو ویسے بھی اب منہا کے چہرے پر اداسی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ رمنا کے انتقال کے بعد منہا جب بہت بیمار ہوٸ اور گم صم رہنے لگی تھی فرہاد کو تب ہی احساس ہوا تھا کہ اس کا چہکتا اور کھلکھلاتا چہرہ اس کے لیے کتنا معنی رکھتا تھا اور رمنا جب زندہ تھی دونوں ہر دم ہنستی اور کھلکھلاتی ہی تو رہتی تھیں ۔ 
” میں بھاٸ کے جانے سے اداس ہوں  ،   پہلے رمنا چھوڑ کر چلی گٸ اور اب بھاٸ پڑھنے کے لیے لاہور جا رہے  ہیں ، اماں کہہ رہی تھی سال میں بہت حد ہے دو ہی چکر لگایا کرے گا وہ “ 
منہا نے اداس سی صورت بناۓ اسے اپنے لٹکے منہ کا سبب بتایا ، فرہاد نے اس کے لیے نرم مسکراہٹ کو لبوں پر آنے سے روکا ۔
” پگلی تو خط لکھا دیا کرنا تقی بھاٸ کو “ 
فرہاد نے جھٹ حل پیش کیا تھا اسے 
” تو پوسٹ کر آیا کرے گا نا “ 
منہا نے مسکراتے ہوۓ پوچھا 
” ہاں کر آیا کروں گا بس کرایہ لگا کرے گا “ 
فرہاد نے ایک آبرٶ چڑھاۓ اسے معاوضے کا بتایا اور مسکراہٹ شرارت سے دباٸ 
” تم جیسے کمینے سے مجھے بس یہی توقع ہے اور کر بھی کیا سکتے  ہو تم “ 
منہا نے دانت پیس کر اسے دیکھا اور پھر ناک بھینچے  سر کتاب پر جھکا دیا ،  وہ منہا کو ابھی مزید تنگ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا پر اریب کی آتی آوازوں پر منہ بسور کر دہلیز کی طرف چل دیا جہاں اریب کمر پر دونوں ہاتھ دھرے اسے غصے سے گھور رہی تھی۔
                                      ********
کمرے میں سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی ، مالا غزالہ کے آگے کھڑی تھی اور غزالہ پلنگ پر بیٹھی تھی ۔ غزالہ سو کر اٹھی تو مالا کہیں بھی نظر نہیں آٸ اس کو ہی تلاش کرتی اپنے کمرے سے ملحقہ بچوں کے  کمرے میں آٸ تو وہ گھٹنوں میں چہرہ چھپاۓ سسک رہی تھی ۔ اور اب غزالہ اسے اپنے سامنے کھڑا کر کے رونے کی وجہ پوچھ رہی تھی ۔
” اماں تقی بھاٸ بہت گندہ ہے۔۔۔۔ مجھے مارا ہے انہوں نے  “
مالا نے سسکیوں میں بمشکل اپنے رونے کی وجہ بتاٸ ، غزالہ اس کے گال پر تقی کی انگلیوں کے نشان دیکھ کر کچھ پل کو ساکن رہ گٸ ۔ 
پر دل جانتا تھا تقی نے بلا جواز مالا کو نہیں مارا ہوگا ، وہ تو نکاح کے بعد سے کسی سے بھی سیدھےمنہ بات نہیں کر رہا تھا یقیناً مالا اسے تنگ کر رہی ہو گی جو اس نے اسطرح کا ردعمل ظاہر کیا لیکن مالا شاٸد اس سے اسطرح کے کسی بھی عمل کی توقع نہیں رکھتی تھی اس لیے بری طرح دہل گٸ تھی ۔
 بچوں کی نفسیات ہوتی ہے جو ان سے زیادہ لاڈ پیار کرتے ہیں بچے ان کی سختی اور مار کو زیادہ محسوس کرتے ہیں نسبتاً  ان کے جو ان سے شروع سے سختی برتتے ہوں   اور یہی مالا کے ساتھ ہوا تھا ۔ تقی نے شروع سے ہی اس سے لاڈ اور نرمی کا رویہ روا رکھا تھا اور اب یوں اچانک کٹیلا لہجہ اور ساتھ تھپڑ جڑ دینا  مالا کے  کچے ذہن پر پکی اور  گہری چھاپ چھوڑ رہا تھا ۔
غزالہ نے آہستگی سے اسے اپنے قریب کیا اور اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا ،  داٸیں گال سرخ تھی جہاں آنکھ کے قریب سے لے کر پوری گال پر تقی کے  مضبوط ہاتھ اور انگلیوں کے نشان تھے اس کی جلد شاٸد بہت نازک تھی کے باقاعدہ انگلیاں  چہرے پھر چھپ گٸ تھیں اور پھر آنکھ کے قریب پپوٹا بھی سوزش کا شکار  تھا ۔
” اماں تقی بھاٸ نے کیوں مارا مجھے ، وہ گندہ ہے بہت میں کبھی بات نہیں کروں گی ان سے “ 
وہ مسلسل ہچکیوں میں رو رہی تھی اور آنسو متواتر گال سے بہہ رہے تھے جنہیں وہ آج صاف کرنے کی بھی زحمت نہیں کر رہی تھی ۔
” مالا ۔۔۔ وہ تیرا بھاٸ نہیں ہے اب سے ،  اسے صرف تقی بولنا ہے بیٹا ، اور تو اسے تنگ کر رہی تھی نا ۔۔ ہے نا بول  ؟ ؟ “ 
غزالہ نے محبت سے اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا اور اپنا چہرہ سوالیہ انداز میں ہلاتے ہوۓ اس سے سوال کیا ۔ مالا ایک لمحہ کو رونا بھولی پر پھر فوراً بولی 
” میں ۔۔۔ میں تنگ کب کر رہی تھی تقی بھ۔۔ تقی نے خود بولا تھا جب بھی  پتاشے لینے ہو مجھے کہا کرو “ 
مالا نے اپنی صفاٸ پیش کی اور ماں کے گھورنے پر تقی کے بعد بھاٸ کے لفظ کو ادھورا چھوڑ دیا ۔ 
” ہاں تو اب سے تو اسے پتاشے لینے کا نہیں کہے گی ، اور ویسے بھی وہ تو جا رہا ہے پڑھنے نا یہاں ہو گا نا تجھے پتاشے لا کر دے سکے گا  “ 
غزالہ نے تقی کی بات کی تاٸید کی مالا کے آنسو تھم گۓ تھے ، پر تقی کے جانے کا سن کر وہ اب ناسمجھی سے ماں کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ پھر ایک دم کچھ سوچ کر گویا ہوٸ 
” مجھے ڈر لگتا ہے میں اب کبھی نہیں جاٶں گی ان کے کمرے میں  ، کبھی بات نہیں کروں گی جیسے بی جی سے نہیں کرتی ہوں ، اماں وہ گندے ہیں “ 
مالا نے جیسے اپنا آخری فیصلہ سنایا ہو، اور پھر غزالہ سے اپنا چہرہ چھڑوا کر ایک طرف چل دی ۔اور غزالہ گہری سانس لے کر رہ گٸ ۔
 وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اسے کسی بات کو اب سمجھانا بہت غلط تھا اور ویسے بھی چوہدری حاکم نے سختی سے تمام گھر والوں کو تنبہیہ کیا تھا کہ جب تک مالا بالغ اور عاقل  نہیں ہو جاتی کوٸ بھی گھر کا فرد اس کے اور تقی کے رشتے کے بارے میں اسے نہیں بتاۓ گا ۔ 
                                  **********
گہرے بھورے رنگ کا  گھوڑا ٹپ ٹپ پاٶں مارتا تار کول میں لپٹی سڑک پر دورڑ رہا تھا اس کے گردن پر موجود بال داٸیں باٸیں حرکت کر رہے تھے  ، گھوڑے کے پیچھے بگی نما دو بڑے پہیوں والی گاڑی تھی جسے گھوڑے کے  ساتھ چمڑے کی بلٹوں کی مدد سے  باندھا گیا تھا اور گھوڑا اس دو پہیوں اور آگے پیچھے دو سیٹوں والی بگی نما گاڑی  کو اپنے ساتھ کھینچے ہوۓ تھا۔ اس کو چلانے والا آدمی کچھ دیر بعد لگام کو کھینچتے ہوۓ گھوڑے کو چابک مار رہا تھا ۔
لوگ اسے تانگہ یا یکہ کہتے تھے ، یکے کے  پیچھلی نشست پر  تقی اور بہادر  بیٹھے تھے بہادر نے گود میں تقی کا سازو سامان دبوچ رکھا تھا جبکہ وہ تانگے کو ایک طرف سے  تھامے خاموش بیٹھا تھا  ۔
بہادر  اس کے ساتھ لاہور آیا تھا ، یہاں انہیں پہلے منیر میاں کے ایک دوست کے پاس جانا تھا جس نےتقی  کی  لاہور میڈیکل کالج  اور ہاسٹل میں داخلے  کے سلسلے میں  مدد کرنی تھی ۔
لاہور شہر میں  لودھراں اور دنیا پور کی نسبت   زیادہ موٹر  گاڑیاں نظر آ رہی تھیں ۔ لوگ بھی اس وقت کے جدید لباس میں ارد گرد مگن سے گھومتے  نظر آ رہے تھے دوکانیں اور عمارتیں سب پکی اینٹوں سے بنی تھیں اور چھوٹے شہر کی نسبت بڑی تھیں ۔ 
سٹیشن سے باہر آتے ہی انہوں نے منیر میاں کے دوست کے گھر کا پتہ تانگے والے کو سمجھا  دیا تھا اور اب تانگہ اسی رستے پر رواں دواں تھا ۔ 
نیا شہر نۓ لوگ اور بلکل الگ ماحول ایسا نہیں تھا کہ وہ لاہور زندگی میں پہلی دفعہ آیا تھا بچپن سے لے کر اب تک  وہ کٸ دفعہ لاہور آ چکا تھا کبھی نقیب حاکم کے ساتھ کبھی منیر میاں کے ساتھ پر یوں یہاں آٹھ نو سالوں کی پڑھاٸ کے لیے اور اپنے خواب پورے کرنے پہلی دفعہ آیا تھا ۔ 
 اس کے ساتھ بیٹھا بہادر منہ کھولے حیرت سے  اردگرد دیکھ رہا تھا وہ پہلی دفعہ لاہور آیا تھا اور اب بے انتہا خوش تھا ، پکی چوڑی سڑکیں ، جگہ جگہ موٹر گاڑیاں اور سیاہ برقعے کے بنا گھومتی جدید طرز کے فیشن سے لیس خواتین سب اس کے لیے بلکل الگ دنیا جیسا تھا ۔ 
 چوہدری حاکم نے اسے صرف سفر میں تقی کا خیال رکھنے کی غرض سے  بھیجا تھا اب اس کی دو دن بعد ہی واپسی تھی ۔ 
                               **********
گورنمنٹ گرلز ھاٸ سکول  چک مٹھن گہرے سبز رنگ کے بورڈ پر سفید رنگ سے یہ حروف پینٹ کیے ہوۓ تھے  ۔   یہ عمارت گاٶں میں موجود لڑکیوں کے واحد سرکاری سکول کی تھی جو اس سال ہی مڈل سے ھاٸ  تک ترقی کر چکا تھا  ۔ 
گہرے میرون اور سرخ  ملے جلے رنگ کی  دیواریں جن کا اوپری حصہ سفید رنگا کا پینٹ کیا گیا  تھا  اتنی  چھوٹی تھیں کہ باہر سے گزرتے لوگ سکول کے اندر کا منظر اچک اچک کر دیکھ سکتے تھے ۔ 
سکول کے اندر سفیدہ ، نیم ، پیپل ، برگد کے  درخت زیادہ اور کمرہ جماعت کم تھے یہی وجہ تھی بہت سے استانیاں درختوں کے نیچے سن کے بنے ہوۓ کپڑے جنہیں ٹاٹ کہا جاتا ہے بچھا کر ان پر بچوں کو قطار در قطار بٹھاۓ ہوٸ تھیں ۔ 
دوسری جماعت کا تختہ سیاہ  بھی دیوار کے بجاۓ ایک درخت کے موٹے  تنے کے ساتھ لٹکایا گیا تھا اور تختہ سیاہ سے کچھ ہی آگے مس نسیم آنکھوں پر چشمہ ٹکاۓ ، لکڑٸ کی کرسی پر براجمان  بچوں کی کاپیوں کو گود میں رکھے چیک کر رہی تھیں ۔ 
اور سامنے دو قطاروں میں بچھے ٹاٹ پر بچیاں بیٹھی  لکڑی کی بنی تختیوں پر  لکھ رہی تھیں ہر بچی کے ہاتھ میں پتلے سے بانس کو تراش کے بناۓ ہوۓ  قلم تھے جسے وہ  چھوٹی چھوٹی دوات نامی سیاہ سیاہی کی  ڈبیوں میں بھگو بھگو کر  تختی پر لکھ رہی تھیں ۔ 
 ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا سالانہ امتحانات کے بعد  پہلی جماعت  کی بچیاں دوسری جماعت میں آٸ تھیں ۔ اور مس نسیم کو اس سال پہلی بار دوسری جماعت سے پالا پڑا تھا ۔
” مالا ۔۔۔ مالا کھڑی ہو جاٶ “ 
لکڑی کی کرسی پر براجمان مس نسیم نے عینک کو ناک کے اوپر درست کیا اور ہاتھ میں پکڑی کاپی سے نگاہ اٹھاۓ  سامنے بیٹھی مالا کو پکارا ۔ مالا جو تختی پر لکھنے میں مصروف تھی نام سن کر چونکی اور پھر فوراً تختی کو ایک طرف رکھتے ہوۓ احتیاطً پاس پڑی کتاب کو اٹھاۓ کھڑی ہوٸ کہ  شاٸد مس نسیم نے اسے سبق سنانے کے لیے بلایا ہے ۔
” جی مس جی “ 
مس نسیم کے قریب آ کر تیکھی سی آواز میں مٶدبانہ کہا ، دل ہولے ہولے لرز رہا تھا سبق تو ہر روز کی طرح آج بھی نہیں آتا تھا اور مس نسیم نے آج سب سے پہلے اسے بلا لیا تھا ۔ 
”  مالا تمھاری کاپی آج پھر خالی ہے ، تم گھر جا کر پڑھتی کیوں نہیں ہو ،  جو کام تمہیں لکھنے کو دیتی ہوں وہ کیوں نہیں کر کے آتی تم ؟ ؟  “ 
مس نسیم نے سختی سے پوچھا ، وہ کافی دن سے دیکھ رہی تھیں کہ وہ ہوم ورک کے لیے یا تو کھڑی ہو جاتی تھی یا پھر خالی کاپی ان کے میز پر دھر جاتی تھی ۔  مالا مس نسیم کا غصہ دیکھ کر ایک دم گڑبڑا گٸ ۔
” مس جی پڑھتی تو ہوں “ 
مالا نے حد درجہ معصومیت سے جواب دیا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب کو سینے سے لگا کر اس کے کونے کو انگلیوں سے مڑوڑا۔ مس نسیم کی اچانک نگاہ کتاب پر پڑی ۔
” یہ تمھاری کتاب ہے ؟  “ 
مس نسیم کو حیرت کا شدید  دھچکا لگا تھا مالا کے ہاتھ میں پکڑی کتاب انتہاٸ بوسیدہ  اور جگہ جگہ سے پھٹی ہوٸ تھی ۔ مالا نے مس نسیم کے سوال پر گھبرا کر کتاب کی طرف دیکھا 
” چوہدری حاکم کی پوتی ہو کر ایسی کتاب ؟ “ 
مس نسیم کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی ، پورے گاٶں میں وہ لوگ مالدار زمیندار تھے ، مالا کے کپڑے جوتے اس کی امارات کا پتہ دیتے تھے ۔ وہ ٹاٹ پر بیٹھی سب بچیوں  میں نمایاں ہوتی تھی صاف ستھری دھلی ہوٸ ،  رابن نیل سے چمکتی سکول کی وردی ، ہلکے سے تیل لگے دو چٹیوں میں باندھے بال جن کے نیچے سرخ ربن کو پھول کی شکل میں باندھا ہوتا تھا اگرچہ سکول سے واپسی تک وہ اپنا حلیہ بگاڑ لیتی تھی لیکن پھر بھی وہ یہاں بیٹھی تمام بچیوں میں نمایاں ہوتی تھی ۔  پہلی ہی قطار میں بیٹھی ایک بچی تیر کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر  کھڑی ہوٸ 
” مس جی۔۔۔۔ مس جی۔۔۔۔ میں بتاٶں ؟ ،    یہ اس کی کتابیں تھوڑی ہیں ، یہ تو شازیہ کی کتابیں ہیں ، اس نے اس سے اپنی نٸ کتابیں دے کر اس کی پرانی کتابیں لے لی ہیں “ 
 تیز طرار سامنے کے دو دانت ٹوٹے ہوۓ بچی صبا نے کھڑے ہو کر مس نسیم کو حقیقت سے آشانہ کیا تو وہ منہ کھول کر اب حیرت سے سوالیہ نگاہیں مالا پر جما چکی تھیں جو اب حواس باختہ کھڑی تھی اور صبا نامی بچی گردن اکڑاۓ مس نسیم کو دیکھ رہی تھی ۔ 
” شازیہ کی کتابیں اس سے لے لیں !!!!۔۔۔ مالا یہ کیا چکر ہے کیوں دی تم  نے  اپنی نٸ کتابیں اس کو   ،  بولو۔۔؟  “ 
مس نسیم نے بازو سے پکڑ کر مالا کو اپنے قریب کیا تو مالا ہل گٸ اور نگاہیں نیچی کر لیں ، مس نسیم نے فوارً شازیہ کو گھورا  ، شازیہ ہمیشہ اپنی بڑی بہن کی استعمال شدہ کتابیں استعمال کرتی تھی جو اس دفعہ مالا نے اس سے لے لی تھیں ۔
” شازیہ تم اٹھو اَدھر آٶ اور بتاٶ کیا ہے ماجرا سارا  “ 
مس نسیم نے سخت آواز میں شازیہ کو حکم دیا تو وہ فوراً تعمیل کرتی ہو ٸ  اپنی جگہ سے اٹھ کر مس نسیم کے پاس آٸ جہاں مالا پہلے سے سر جھکاۓ کھڑی تھی ۔
” مس جی وہ کیا ہے اس نے مجھے کہا مجھے روز دو گلاب جامن  لا کر دینا اپنے ابا کی دوکان سے میں تمہیں اپنی نٸ کتابیں دے دیتی ہوں اور تمھاری پرانی کتابیں خود رکھ لیتی ہوں “ 
شازیہ نے معصومیت سے مالا کے بیوپار سے آگاہ کیا تو مس نسیم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا پھر آنکھوں کو غصے سے سکوڑ کر انہوں نے مالا کی طرف دیکھا جو اب بھرپور معصومیت چہرے پر طاری کر چکی تھی ۔ 
شازیہ کا والد گاٶں کا ایک چھوٹا سا حلواٸ تھا اور مالا رہی میٹھے کی شیداٸی ایک دن شازیہ کو دیکھا  کہ وہ روز سکول کی آدھی چھٹی کے دوران  روٹی کھانے کے بعد کبھی ایک گلاب جامن کھاتی تھی تو کبھی برفی کھاتی تھی جو اس کی اماں اس کے کھانے میں رکھ دیتی تھی  تو بس پھر مالا کے ننھے سے ذہن نے اس سے  لین دین کے بارے میں سوچ لیا پڑھاٸ تو وہ ویسے بھی سرے سے نہیں کرتی تھی تو کتابیں نٸ ہوں یا پرانی اسے اس سے کوٸ فرق نہیں پڑتا تھا ۔ 
” تم کیا پاگل ہو مالا ، بتاٶں میں  اب تمھارے  گھر جا کر چوہدری صاحب کو  یہ سب ؟ ۔۔۔۔ بولو ۔۔۔۔ “ 
مس نسیم نے جھنجوڑتے ہوۓ اس سے پوچھا ، وہ تو اور سہم گٸ جلدی سے نفی میں سر ہلا دیا آنکھوں میں آنسو تیر گۓ  ، پہلے جب تقی گھر ہوتا تھا تھا سب چھوٹے بچوں کی کتابیں اور ان کی پڑھاٸ کا دھیان رکھتا تھا اب تو مالا کو یہ فکر بھی نہیں تھی غزالہ ویسے بھی ننھے مہمان کے آنے کی خوشخبری کی وجہ سے بے حال سی رہتی تھی اس لیے کبھی اس کی طرف توجہ ہی نہیں دیتی تھی ۔ 
”شازیہ بیٹے دو مالا کو اس کی کتابیں واپس اور تم کل سے اس کے لیے کوٸ گلاب جامن نہیں لاٶ گی سمجھی “ 
مس نسیم نے غصے سے شازیہ کو ڈپٹا اور پھر مالا کی ساری کتابیں شازیہ کے بستے سے اس کے بستے میں منتقل کر دیں ۔ 
” مالا ۔۔۔ یہ آخری دفعہ تمہیں خبردار کر رہی ہوں کل سے  اگر تم نے گھر کا کام اپنی کاپیوں پر نہیں کیا تو میں خود تمھارے گھر آ جاٶں گی سمجھی ۔۔۔۔ “ 
مس نسیم نے مالا کے کان کو مڑوڑتے ہوۓ اس تنبہیہ کیا جو کان کی تکلیف سے منہ کا زاویہ مکمل بگاڑ چکی تھی پھر سر جھکا کر اثبات میں ہلایا 
” چلو اب جاٶ اپنی جگہ پر بیٹھو جا کر “ 
مس نیسم نے غصے سے اسے جانے کا حکم صادر کیا تو وہ کچھ دور بیٹھی صبا کو خفگی سے گھورتی ہوٸ اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گٸ ۔ جبکہ صبا اب آگے کے دو ٹوٹے ہوۓ دانتوں کی نماٸش کرتے ہوۓ ہنس رہی تھی ۔ 
                                ***********
تقی کتابیں ایک ہاتھ میں تھامے کمرہ جماعت میں داخل ہوا تھا ۔ لکڑی کا داخلی دروازہ تھا اور لمباٸ رخ کلاس میں بہت سی کرسیاں لگی تھیں جہاں بہت سے لڑکے اور لڑکیاں براجمان تھیں ۔ اس کا آج پہلا دن تھا داخلے اور ہاسٹل کے انتظامات میں تقریباً پندرہ دن لگ گۓ تھے  ۔ 
 سفید کُرتا شلوار میں ملبوس بالوں کی سلیقے سے ایک طرف مانگ نکالے وہ جیسے ہی کمرہ جماعت میں داخل ہوا کتنی ہی کاجل سے اٹی آنکھیں  ستاٸیشی اس پر اُٹھی تھیں اور کچھ لڑکے منہ پر ہاتھ رکھے ہنس پڑے  تھے پوری جماعت میں ایک وہ واحد کُرتا پاجامہ پہنے ہوۓ تھا باقی سب تو پتلون اور شرٹ میں ملبوس تھے ۔ 
یہ لاہور کا مشہور میڈیکل کالج تھا جس میں تقی کا ڈاکڑی میں داخلہ ہو گیا تھا ، منیر میاں کے دوست کے یہاں اچھے اثر رسوخ کے سنگ تقی کے بہت اچھے نمبر تقی کو آج اس کے خوابوں کی ڈگر  تک لے آۓ تھے ۔ 
وہ  سب کی ستاٸیشی اور استہزایہ نگاہوں سے بے اعتناٸ برتا ارد گرد لگی کرسیوں کے بیچ میں سے گزر کر  پہلی قطار میں موجود خالی کرسی پر براجمان ہوا  وہیں  ساتھ والی کرسی پر  ایک لڑکا بیٹھا تھا جو اس کو اب دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا ۔
” نۓ ہو ۔۔۔ جماعت کو شروع ہوۓ تو پندرہ دن ہو چکے ہیں “ 
بلال نامی لڑکے نے شاٸستگی سے سوال کیا ، تقی نے کتابیں لکڑی کی کرسی کے بازو پر رکھیں اور توجہ ساتھ بیٹھے لڑکے کی طرف مبذول کی 
” جی نیا ہوں پتہ ہے پندرہ دن ہو چکے ہیں ، میں بیس دن کا پہلے سے ہی پڑھ کر آیا ہوں  “ 
تقی نے بھی دوستانہ مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہوۓ اس کے سوال کا جواب دیا اور پھر یونہی سوال و جواب کا سلسلہ چلتے چلتے پہلے ہی دن اس کی بلال انجم نامی  اس لڑکے سے اچھی سلام دعا ہو گٸ ازاں بعد  جماعت کے اختتام پر   بلال نے اسے اپنے دو اور دوستوں سے متعارف کروایا ، نمیر اور طلحہ بھی  تقی کے ساتھ خوشدلی سے ملے تھے ۔ تقی کے نمبروں نے انہیں کافی متاثر کیا تھا ۔
اسطرح وہ پہلے ہی دن اپنی سحر انگیز شخصیت اور ذہانت  کے باعث دوست بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ 
                                  *********
سات سالہ مالا نیم کے  درخت کے موٹے تنے پر بیٹھی ٹانگیں نیچے لٹکاۓ جھلا رہی تھی اور ساتھ ساتھ نبولیاں کھا رہی تھی، بال کندھوں سے نیچے جانے لگے تھے ، قد کاٹھ بھی ایک سال میں ڈبل ہو گیا تھا ۔ 
اس کے  ساتھ ہی کچھ دور تنے کے دونوں اطراف میں ٹانگیں کیے سکینہ بیٹھی  سامنے  رکھی کاپی کے سفید صفحات پر پنسل سے لکھ رہی تھی ۔ 
” اچھا اچھا لکھ  کیسے  لکھ رہی ہے ، تیرا اپنا کام ہوتا تو کیا ایسے لکھتی تو ،   مس نسیم چمڑی ادھیڑ دے گی میری  “ 
مالا نے پاٶں سکینہ کے پاٶں پر مارا تھا ، سکینہ  نے گھور کر اس کی طرف دیکھا جو بڑے مزے سے ٹانگیں ہوا میں مارتی اسے کام اچھا کرنے کا کہہ رہی تھی  اور سکینہ اس کے  سکول کا کام کر رہی تھی وہ اسکا کام آج پہلے دن نہیں کر کے دے رہی تھی بلکہ سال ہونے کو آیا تھا اس کا کام سکینہ ہی اسے کر کے دیتی تھی اور وہ مزے سے پاس بیٹھی رہتی تھی ۔ دوسری جماعت کے سالانہ امتحانات نزدیک تھے اور وہ سارا سال کھیل کود اور مستی میں گزار چکی تھی ۔  
” مالا دیکھ تمیز سے بات کر ایک تو تیرا کام کر کے دے دیتی ہوں روز اوپر سے تو باتیں سناتی ہے مجھے“ 
سکینہ نے منہ پھلا کر مالا سے شکوہ کیا  جو درخت کے تنے پر   بڑے مزے سے بیٹھی نبولیاں کھا کر ان کی گٹھلیوں کو پھونک مار کر  نیچے زمین پر پھینک رہی تھی 
” اے ہے ۔۔۔ ہے ۔۔۔ تجھے جو شوق چڑھا رہتا تھا  میری کتابیں اٹھا کر بیٹھی رہتی تھی  تو چل تیرا شوق پورا کر دیا  اور کیا تو سمجھ رہی ہے میں کام چور اور نالاٸق  ہوں ؟ “ 
مالا نے گردن ہلاتے ہوۓ سارا ملبہ اس پر گرا دیا، سکینہ پہلی جماعت کے بعد  سے ہی سکول سے اٹھا لی گٸ تھی ، جب تک اس کے ابا زندہ تھے وہ سکول جاتی تھی پھر اس کے بعد تاری بوا نے گھر بیٹھا لیا اب مالا کی دوسری جماعت کی کتابیں وہ چوری چھپے پڑھتی رہتی تھی ۔ 
سکینہ نے مالا کی بات پر  سر کو تاسف سے ہوا میں مارا اور  پھر سے اس کا کام لکھنے لگی تھی کہ پرسوچ بیٹھی مالا ایک جھٹکے سے گویا ہوٸ 
” اے اے ۔۔۔ سن سکینہ ۔۔۔ جیسے تو نے  صرف پہلی  جماعت پڑھی پھر گھر بیٹھ گٸ اور بھی کتنی لڑکیاں سکول چھوڑ دیتی ہیں میں ایسا کیا کروں کہ اگلے سال سے سکول ہی نا جاٶں دا جی کہیں گھر بیٹھ جا مالا بس دو جماعتیں بہت ہیں  “ 
مالا نے چہکتے ہوۓ سکینہ سے پوچھا آنکھیں ایک دم سے چمک اٹھی تھیں اور نبولیاں قمیض کے دامن سے نیچے فرش پر گر گٸ تھیں 
” اس کا تو ایک ہی حل ہوتا ہے فیل ہو جانا “ 
سکینہ نے  کاپی پر سر جھکاۓ مگن سے انداز میں اسے جواب دیا اور پھر چونک کر اس کی طرف دیکھا جو خوش ہو گٸ تھی اس مشورے پر



Post a Comment

0 Comments