میرے گھر والے میری شادی کرنا چاہتے تھے۔مجھے اس چیز سے کوئی خاص مطلب نہ تھا ۔گھر والوں نے اک لڑکی دیکھی ۔۔اور پسند کی ۔مجھے تصویر دیکھائی گئ۔۔مجھے تو اک عام سے لڑکی لگی۔کوئی خاص چیز تو نظر نہ آئی۔میں نے کہا اپ لوگوں کو پسند ہے تو اوکے کر دو۔منگنی ہو گئ۔میں نے نہ تو کبھی کال کی نہ کبھی ان کے گھر گیا ۔مجھے یہ سب چیزیں کی فکر ہی نہ تھی۔میں اپنی زندگی میں خوش تھا ۔اچھا کما لیتا تھا۔اپنا کام تھا۔اوپر فلیٹ تھا ۔باہر سے کھانا کھاتا اور سو جاتا ۔پورا دن نیچے کام پر گزارتا تھا ۔دل کیا تو گھر بھی چلے جاتے تھے ہم۔شادی کا دن ا گیا ۔میں نے گھر کہا ۔۔بس نکاح کرو ۔اور کوئی رسم وغیرہ رہنے دو۔۔مجھے بس یہی تھا۔اک لڑکی کی زمےداری اٹھانی ہے بس۔کھانے پینے اور جو وہ ضرورت کی چیزیں مانگے لا دو بس ۔۔مطلب کے شادی نہ بھی ہوتی تب بھی اپنا گزارہ ہو رہا تھا۔شادی ہو بھی جائے تو فرق تو آنا نہیں تھا۔۔۔
شادی ہوئی لڑکی کو گھر لے آئے باقی وہ جو رسم وغیرہ ہوتی ہے۔۔یہ تو سب گھر والوں کی ہوتی ہے ۔۔رخصتی وغیرہ کے بعد میں گھر آگیا۔خیر میں نے کہی پڑھا تھا ۔شادی کے دو نفل ادا کرنے ہوتے ہیں۔۔میں نے وہ بھی ادا کر لے وہ اسی بہانے عشاء کی نماز بھی پڑھ لی۔ویسے کبھی دل میں آیا تو نماز پڑھی لی نہیں تو نہ سہی۔اور میں سو گیا۔جو میری روٹین تھی مجھے نیند آئی اور میں سو گیا۔۔۔نہ تو مجھے خوشی تھی اور نہ ہی غم ۔شادی کا۔اگلے دن میں اٹھا اور کام پر آگیا ۔دو دن ایسے ہی گزار گئے۔۔۔
بات چیت ہوئی بس اتنی جتنا اس نے پوچھا جواب دے دیا ۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔اس نے پوچھا کیا اپ شادی سے خوش نہیں میں نے کہا ۔مجھے دکھ بھی نہیں۔میں لوگوں میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لیتا ہو بس۔۔
نہ کبھی میں نے اس کی تعلیم پوچھی نہ کچھ اور ۔میں نے کون سا جاب کروانی تھی۔اک دو بار گھر چھوڑنے گیا اس کو امی کے کہنے پر ۔۔نہ میں نے اس کو پردے کا کہا۔نہ حجاب کا اس کو جو اچھا لگے کر لے۔مطلب کے اپنا عمل دخل کچھ نہ تھا۔
سوچنے پر تو وہ بھی مجبور تھی ۔بندہ ہے کہ کیا چیز۔
میں سویا ہوا تھا ۔میرا پئر کا انگھوٹا اس نے پکڑا اور کہا اٹھیں نماز پڑھ لیں۔۔میں نے ارد گرد دیکھا۔خیر میں نے اس کو کچھ کہا نہیں ویسے کوئی ملازم اٹھتا تھا جب اس کی خیر نہ ہوتی تھی ۔۔میں بولا کچھ نہیں میں نے سوچا۔چلاو اب اٹھ گیا تو نماز بھی پڑھ لو۔۔
دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بستر پر ۔اب وہ میرے پاس ہئ بیٹھ گی۔قرآن پڑھنے لگی ۔میں مست ہو کہ سویا ہوا۔آواز تو اہستہ اہستہ آرہی تھی خیر میں اٹھا نہایا ناشتہ بنا دو اواز ائی میں نے کہا نہیں ۔میں لیٹ کرتا ہو اور میں اپنے کام پر خیر لیٹ تھا میں گھر نہیں گیا اور فلاٹ پر ہی سو گیا ۔۔اگلے دن میں گھر گیا تو امی نے کلاس لی ۔کہ گھر کیوں نہیں آیا۔اب تیری شادی ہو گئ ہے۔جتنا مرضی لیٹ ہو جائے گھر آنا ہے ۔وہ پاس ہی کھڑی تھی۔میں اچھا کہا کر جا کے کمرے میں سو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی کمرے میں آگئ ۔میں نے پوچھا امی سے تم نے کہا اس نے کہا میں تو امی کو نہیں کہا۔
اگلی صبح اس نے پھر مجھے اٹھا دیا ۔اور خود جائے نماز پر کھڑی نماز ادا کی نیت اب بندہ اس کو کیا کہے ۔۔خیر ہم نے بھی شرم وشرمی وضو کر کے نماز ادا کر ہی لی ۔اس کے بعد اس نے کہا اپ میری بات سنے ۔میں نے کہا جی کہے۔میں اپ کی بیوی ہو ۔میں نے کہا ہاں جی ۔بیوی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں میں نے کہا۔پتہ ہے۔
اس کے بعد وہ قران پڑھنے لگی۔میں خاموش اپنے موبائل پر لگا رہا۔
اگلی رات وہ شرارتیں کرنے لگی ۔اور جسے تیسے اس کے حقوق ادا کئے۔۔یا اس نے اپنے حقوق لے لیے۔
وہ لڑکی اہستہ آہستہ میری زندگی میں انولو ہونے لگی۔خیر اپنے بھی مزے ہونے لگے۔ہر چیز تیار ملنے لگی۔کپڑے جوتے وغیرہ۔ہر چیز اپنی جگہ پر ملتی کہی بھی پھنک دو۔
نماز پڑھنے لگا تھا اب۔مطلب زندگی اب بہتر ہوئی تھی ۔اس کے آنے سے اور کافی مل گل گئے تھے ہم ۔اس نے قران پڑھنا تو میرا سر اس کی گود میں ہوتا ۔یا اس کی ٹانگ پر۔۔آواز پیاری تھی ۔اکثر سو بھی جاتا۔جب تک میں خود نہ اٹھتا وہ جاگتی نہیں قرآن پڑھتی رہتی ۔اب میں کام پر اکثر لیٹ بھی ہونے لگا۔۔اس کی گود میں سر رکھ کے سونے کا مزہ ہی الگ تھا ۔اک بات اور گھر سے کام پر جاتے وقت میں نے اسے ہی اس کو آواز دی اور اس کا ماتھا چوم لیا۔شام کو گھر ایا ۔تو رنگ روپ ہی بدلہ ہوا۔اتنا خوش بندہ میں نے دیکھ ہی نہں۔میں نے سوچا یہ تو کام ہی بڑا سستا ہے۔۔اب ہر روز ماتھا چوم کر جاتا۔وہ کہی بھی مصروف ہو گھر کے کاموں میں اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے کمرے میں آنا ۔۔تاکہ میں اس کا ماتھا چوم سکوں۔نرم لہجہ کمال کی گفتگو۔کمال کی محبت ۔پسند کے کھانے۔سکوں کی نیند ۔۔زندگی مکمل ہو گئ۔
زندگی میں لوگ کیسے خاموشی سے داخل ہوتے ہیں اور اپ پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں۔کیا جرات ہماری جو انکار کر سکے اسے۔
کئ بار تو دل نکال کر دینے کو بھی دل کیا۔خاموش محبت بہت پیاری ہوتی ہے۔۔
محبت الفاظوں کی نہیں احساس کی ہوتی ہے۔۔۔محبت کا تعلق عزت سے ہے۔عورت کو احساس دو تم میری ہو ۔وہ روح تک دے دیتی ہے اس پر بھی اپ کا حق ہوتا ہے۔۔۔عورت مرد کے لے سکوں ہے۔
شادی ہوئی لڑکی کو گھر لے آئے باقی وہ جو رسم وغیرہ ہوتی ہے۔۔یہ تو سب گھر والوں کی ہوتی ہے ۔۔رخصتی وغیرہ کے بعد میں گھر آگیا۔خیر میں نے کہی پڑھا تھا ۔شادی کے دو نفل ادا کرنے ہوتے ہیں۔۔میں نے وہ بھی ادا کر لے وہ اسی بہانے عشاء کی نماز بھی پڑھ لی۔ویسے کبھی دل میں آیا تو نماز پڑھی لی نہیں تو نہ سہی۔اور میں سو گیا۔جو میری روٹین تھی مجھے نیند آئی اور میں سو گیا۔۔۔نہ تو مجھے خوشی تھی اور نہ ہی غم ۔شادی کا۔اگلے دن میں اٹھا اور کام پر آگیا ۔دو دن ایسے ہی گزار گئے۔۔۔
بات چیت ہوئی بس اتنی جتنا اس نے پوچھا جواب دے دیا ۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔اس نے پوچھا کیا اپ شادی سے خوش نہیں میں نے کہا ۔مجھے دکھ بھی نہیں۔میں لوگوں میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لیتا ہو بس۔۔
نہ کبھی میں نے اس کی تعلیم پوچھی نہ کچھ اور ۔میں نے کون سا جاب کروانی تھی۔اک دو بار گھر چھوڑنے گیا اس کو امی کے کہنے پر ۔۔نہ میں نے اس کو پردے کا کہا۔نہ حجاب کا اس کو جو اچھا لگے کر لے۔مطلب کے اپنا عمل دخل کچھ نہ تھا۔
سوچنے پر تو وہ بھی مجبور تھی ۔بندہ ہے کہ کیا چیز۔
میں سویا ہوا تھا ۔میرا پئر کا انگھوٹا اس نے پکڑا اور کہا اٹھیں نماز پڑھ لیں۔۔میں نے ارد گرد دیکھا۔خیر میں نے اس کو کچھ کہا نہیں ویسے کوئی ملازم اٹھتا تھا جب اس کی خیر نہ ہوتی تھی ۔۔میں بولا کچھ نہیں میں نے سوچا۔چلاو اب اٹھ گیا تو نماز بھی پڑھ لو۔۔
دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بستر پر ۔اب وہ میرے پاس ہئ بیٹھ گی۔قرآن پڑھنے لگی ۔میں مست ہو کہ سویا ہوا۔آواز تو اہستہ اہستہ آرہی تھی خیر میں اٹھا نہایا ناشتہ بنا دو اواز ائی میں نے کہا نہیں ۔میں لیٹ کرتا ہو اور میں اپنے کام پر خیر لیٹ تھا میں گھر نہیں گیا اور فلاٹ پر ہی سو گیا ۔۔اگلے دن میں گھر گیا تو امی نے کلاس لی ۔کہ گھر کیوں نہیں آیا۔اب تیری شادی ہو گئ ہے۔جتنا مرضی لیٹ ہو جائے گھر آنا ہے ۔وہ پاس ہی کھڑی تھی۔میں اچھا کہا کر جا کے کمرے میں سو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی کمرے میں آگئ ۔میں نے پوچھا امی سے تم نے کہا اس نے کہا میں تو امی کو نہیں کہا۔
اگلی صبح اس نے پھر مجھے اٹھا دیا ۔اور خود جائے نماز پر کھڑی نماز ادا کی نیت اب بندہ اس کو کیا کہے ۔۔خیر ہم نے بھی شرم وشرمی وضو کر کے نماز ادا کر ہی لی ۔اس کے بعد اس نے کہا اپ میری بات سنے ۔میں نے کہا جی کہے۔میں اپ کی بیوی ہو ۔میں نے کہا ہاں جی ۔بیوی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں میں نے کہا۔پتہ ہے۔
اس کے بعد وہ قران پڑھنے لگی۔میں خاموش اپنے موبائل پر لگا رہا۔
اگلی رات وہ شرارتیں کرنے لگی ۔اور جسے تیسے اس کے حقوق ادا کئے۔۔یا اس نے اپنے حقوق لے لیے۔
وہ لڑکی اہستہ آہستہ میری زندگی میں انولو ہونے لگی۔خیر اپنے بھی مزے ہونے لگے۔ہر چیز تیار ملنے لگی۔کپڑے جوتے وغیرہ۔ہر چیز اپنی جگہ پر ملتی کہی بھی پھنک دو۔
نماز پڑھنے لگا تھا اب۔مطلب زندگی اب بہتر ہوئی تھی ۔اس کے آنے سے اور کافی مل گل گئے تھے ہم ۔اس نے قران پڑھنا تو میرا سر اس کی گود میں ہوتا ۔یا اس کی ٹانگ پر۔۔آواز پیاری تھی ۔اکثر سو بھی جاتا۔جب تک میں خود نہ اٹھتا وہ جاگتی نہیں قرآن پڑھتی رہتی ۔اب میں کام پر اکثر لیٹ بھی ہونے لگا۔۔اس کی گود میں سر رکھ کے سونے کا مزہ ہی الگ تھا ۔اک بات اور گھر سے کام پر جاتے وقت میں نے اسے ہی اس کو آواز دی اور اس کا ماتھا چوم لیا۔شام کو گھر ایا ۔تو رنگ روپ ہی بدلہ ہوا۔اتنا خوش بندہ میں نے دیکھ ہی نہں۔میں نے سوچا یہ تو کام ہی بڑا سستا ہے۔۔اب ہر روز ماتھا چوم کر جاتا۔وہ کہی بھی مصروف ہو گھر کے کاموں میں اس نے کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے کمرے میں آنا ۔۔تاکہ میں اس کا ماتھا چوم سکوں۔نرم لہجہ کمال کی گفتگو۔کمال کی محبت ۔پسند کے کھانے۔سکوں کی نیند ۔۔زندگی مکمل ہو گئ۔
زندگی میں لوگ کیسے خاموشی سے داخل ہوتے ہیں اور اپ پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں۔کیا جرات ہماری جو انکار کر سکے اسے۔
کئ بار تو دل نکال کر دینے کو بھی دل کیا۔خاموش محبت بہت پیاری ہوتی ہے۔۔
محبت الفاظوں کی نہیں احساس کی ہوتی ہے۔۔۔محبت کا تعلق عزت سے ہے۔عورت کو احساس دو تم میری ہو ۔وہ روح تک دے دیتی ہے اس پر بھی اپ کا حق ہوتا ہے۔۔۔عورت مرد کے لے سکوں ہے۔
0 Comments